کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 15
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بے دھڑک جان کی بازی لگا دیتے تھے۔ یہی محبت تھی جس نے ان کے ایمان کو سمندروں سے زیادہ گہرا، پہاڑوں سے زیادہ مضبوط اور شمس وقمر سے زیادہ درخشاں اور دلآویز بنادیا۔ یہی محبت تھی جس نے اُس خاتون کو بنتِ شہید، زوجۂ شہید اور اُختِ شہید بنادیاجو غزوۂ احد کے کارزار میں کھڑی تھی۔ چاروں طرف تلواریں چمک رہی تھیں، تیر برس رہے تھے، دھول اُڑ رہی تھی، خون بہہ رہا تھا اور کُشتوں کے پُشتے لگ رہے تھے۔خاتون کو بتایا گیا: بہن! تمھارا باپ شہید ہوگیا۔ پھر اطلاع دی گئی: تمھارا شوہر مارا گیا۔ پھر بتایا گیا کہ اب تمھارا بھائی بھی اللہ کو پیارا ہو گیا۔ مگر اِس شہیدِ وفا خاتون نے کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔ اُس کی آنکھیں تو بس ایک ہی رُخِ زیبا کو ڈھونڈرہی تھیں۔…… اچانک دُور سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ضیا بار چہرہ نظر آیا تو اُس کے مُنہ سے بے ساختہ یہ صدائے محبت بلند ہوئی (کُلُّ مُصِیبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلٗ)اے اللہ کے پیارے رسول! آپ صحیح سلامت ہیں تو پھر ساری دنیا کی مصیبتیں ہیچ اور ناقابلِ توجہ ہیں۔… وہ بھی ندائے محبت ہی تھی جو تپتے ہوئے صحرا میں پتھر کی بھاری سلوں کے نیچے دبے ہوئے بلال رضی اللہ عنہ کے لبوں سے نکلتی رہی اور (أحد، أحد) کا نعرۂ وحدت بن کر گونجتی رہی… وہ بھی محبت تھی جو عمر رضی اللہ عنہ کی فراست، عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت اور علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت کی شکل میں نمایاں ہوگئی۔ اور وہ بھی محبت ہی کی صدائے دل نواز تھی جو حسّان بن ثابت اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما کے دل سے الفاظ کا پیراہن پہن کر نکلی اور نعتِ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کہلائی۔ یوں نعت مسلمانوں کے منور ماضی کی یادگار، اُن کے ایمان کی مضبوطی، تہذیبی حُسن اور ادب عالیہ کی پہچان بن گئی۔
ان گزارشات کا مطلب یہ واضح کرنا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری ذاتی محبت و عقیدت کے بغیر کوئی شاعر نعت نہیں لکھ سکتا۔ نعت گو کے لیے ضروری ہے کہ قرآن وسنت