کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 14
کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب
مصنف: پروفیسر عبد اللہ شاہین
پبلیشر: مکتبہ دار السلام لاہور
ترجمہ:
عرضِ ناشر
محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ محبت کسے کہتے ہیں اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے اس واقعے پر غور فرمائیے…… ایک دن ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خانہ کعبہ میں بیٹھے تھے۔ انھوں نے جوشِ تبلیغ میں بلند آواز سے مشرکین مکہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ مشرکین کو یہ بات ناگوار گزری۔ انھوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ پر حملہ کردیا، اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہوکر گرپڑے۔ قبیلہ بنوتمیم کے لوگ اکٹھے ہوگئے۔ انھوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نازک حالت میں دیکھا تو بہت رنجیدہ ہوئے۔ کہنے لگے کہ جب ابوبکر ہوش میں آئیں گے تو ہم انھیں سمجھائیں گے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دوستی چھوڑ دو، ورنہ اہلِ مکہ تمھیں جان سے مار ڈالیں گے۔ ابھی یہ بات جاری تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہوش آگیا۔ انھو ں نے آس پاس نگاہ ڈالی اور بے قرار ہو کر پوچھا: أین رسول اللّٰہ؟ و کیف رسول اللّٰہ؟ ۔
ذرا غور فرمایئے! ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ضربوں سے اس قدر چُور ہیں کہ جان کے لالے پڑگئے ہیں مگر انھیں اپنی کوئی پروا نہیں۔ اس حالت میں بھی انھیں صرف یہی فکر دامن گیر تھی کہ میرے محبوب اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ کہیں ظالم مُشرکوں نے انھیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ؟
یہ واقعہ محبت کی معراج ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایسی ہی محبت سے سرشار تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ