کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 136
(کہ اللہ انسانی پیکر میں سرایت کرگیا ہے جیسے چینی پانی میں حل ہو کر اس کا حصہ بن جاتی ہے، ایسے ہی اللہ انسانی سانچے میں ڈھل گیا ہے) یہودیوں نے اپنے نبی عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہہ کر اللہ کا بیٹا بنا لیا۔عیسائی آئے تو انھوں نے بھی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو ’مسیح ابن اللّٰہ‘ یعنی ’’عیسٰی اللہ کا بیٹا‘‘ کہنا شروع کر دیاحتیٰ کہ بعض مسلمانوں کو بھی تلبیس لاحق ہوئی اور انھوں نے بھی اللہ کے بندے اور رسول، سیدالبشر، رسولِ اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کو ماننے کے بجائے ان کے لیے ’’نور من نور اللہ‘‘ کا فلسفہ اختراع کرلیا۔
دراصل یہ عقیدہ عیسائیوں کا تھا جو جناب مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے۔
[1]
[1] ہاتھ سے ظاہر ہوتو’’کرامت‘‘ہے۔ مگر بعض کم علم لوگ ان معجزات کی بنا پر انبیاء علیہم السلام کو مالک و مختار اور متصرف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ معجزہ و کرامت انبیاء اور اولیاء کے اپنے بس کی بات نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ان کے ہاتھوں سرزد ہوتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے آخری اور پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کفار مکہ طرح طرح کے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جی چاہتا تھا کہ ان کے مطلوبہ معجزات انھیں دکھا دیے جائیں تاکہ وہ قبول اسلام سے راہ فرار اختیار نہ کر سکیں لیکن چونکہ ظہور معجزات کا معاملہ آپ کے بس کی بات نہ تھی، اس لیے بعض اوقات آپ کی طبیعت بہت زیادہ مکدر ہوتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: Ēوَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍĚ’’اور (اے حبیب!) اگر ان کی رو گردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر بس چلے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لے آؤ۔‘‘ (الأنعام 35:6) نیز ان لا یعنی مطالبات کے جواب میں کہ ’’چشمہ پھوٹ بہاؤ، نہر جاری کردو، لہلہاتا باغ اگادو، سونے کا محل تیار ہوجائے، آسمان کے ٹکڑے گرا دو، آواز دو اور ہمارے سامنے اللہ اور فرشتے آموجود ہوں‘‘، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ایک ہی بات کہلوائی۔ Ē قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًĚ’’(اے نبی!) کہہ دیجیے: میرا رب پاک ہے۔ میں تو ایک پیغام پہنچانے والا ’’انسان‘‘ ہوں۔‘‘(بنیٓ إسرآء یل 93:17)