کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 135
بارے میں لا حق رہا ہے۔ قرآن گواہ ہے:
’’ان لوگوں کے پاس ان کی طرف بھیجے ہوئے اللہ کے پیغمبر واضح نشانیاں لے کر آئے۔‘‘[1]
تو اولاً انھوں نے صاف نشانیاں اور معجزات دیکھ لینے کے بعد بھی یہ کہہ کر اللہ کے پیغمبروں کی نبوت و رسالت کو ماننے سے انکار کردیا کہ
تو ان پیغمبروں کی شان میں کہنے لگے ’’ناداں‘‘
کہ سمجھانے چلا ہے ہم کو کیا ہم جیسا اک انساں؟[2]
اگر نبوت اور نیک چلنی کومانا بھی تو انھی خرق عادت ’’معجزات [3] ‘‘ اور ’’کرامات ‘‘ کی بنا پر ان کی ’’بشریت‘‘ کا انکار کردیا، چنانچہ کچھ مذاہب نے نیک لوگوں کو ’’اوتار‘‘ کہنا شروع کردیا(’’اللہ تعالیٰ مجسم صورت میں زمین پر اتر آیا ہے۔‘‘)کچھ نے ’’حلول‘‘ کا عقیدہ اپنا لیا ۔
[1] التغابن 6:64۔
[2] التغابن 6:64۔
[3] معجزہ اور کرامت کی حقیقت: اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ہر چیز کے اندر اس کے طبعی خواص رکھے ہیں، مثلاً: آگ جلاتی ہے، پانی اپنی سطح ہموار رکھتا ہے وغیرہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس کا پابند نہیں کہ ہمیشہ کے لیے اس چیز کے خواص وہی ہوں، اگر اللہ چاہے تو اس چیز کے طبعی خواص کے برخلاف خرق عادت کے طور پر اس سے کچھ بھی صادر کر سکتا ہے۔ لیکن جان لینا چاہیے کہ اختیار کلی اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ اس چیز کو یہ طبعی خواص عطا فرما کر (نعوذ باللّٰہ) اس کے ہاتھ بندھ نہیں گئے بلکہ وہ جب چاہے اس کی طبیعت اور مزاج کو بدل دے۔ اس کو ’’خرق عادت‘‘ کہتے ہیں۔ اگر یہ خرقِ عادت نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتو معجزہ ہے اور اگر ولی کے (