کتاب: متنازع مسائل کے قرآنی فیصلے - صفحہ 98
وَمَا کُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ نَادَیْنَا وَلٰکِنْ رَّحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰہُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ (۴۶) اور نہ تو طور کی طرف تھا جب کہ ہم نے آواز دی٭ بلکہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے ایک رحمت ہے٭ اس لئے کہ تو ان لوگوں کو ہوشیار کردے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں پہنچا٭ کیا عجب کہ وہ نصیحت حاصل کر لیں ٭ یعنی اگر آپ رسول برحق نہ ہوتے تو موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعے کا علم بھی آپ کو نہ ہوتا۔ ٭ یعنی آپ کا یہ علم، مشاہدہ و رؤیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبی بنایا اور وحی سے نوازا۔ ٭ اس سے مراد، اہل مکہ اور عرب ہیں جن کی طرف سے صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی نہیں آیا، کیونکہ جناب ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت کا سلسلہ خاندان ابراہیمی ہی میں رہا اور ان کی بعثت بنی اسرائیل کی طرف ہی ہوتی رہی۔ بنی اسماعیل یعنی عربوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نبی تھے اور سلسلہء نبوت کے خاتم تھے۔ ان کی طرف نبی بھیجنے کی ضرورت اس لئے نہیں سمجھی گئی ہو گی کہ دوسرے انبیاء کی دعوت اور ان کا پیغام ان کو پہنچتا رہا ہو گا۔ کیونکہ اس