کتاب: متنازع مسائل کے قرآنی فیصلے - صفحہ 82
روح سے اس لئے تعبیر کیاہے کہ قرآن سے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے جیسے روح میں انسانی زندگی کا راز مضمر ہے۔ ٭کتاب سے مراد قرآن ہے یعنی نبوت سے پہلے قرآن کا بھی کوئی علم آپ کو نہیں تھا اور اسی طرح ایمان کی ان تفصیلات سے بھی بے خبر تھے جو شریعت میں مطلوب ہیں ۔ ٭یعنی قرآن کو نور بنایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے ہم جسے چاہتے ہیں ، ہدایت سے نواز دیتے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ قرآن سے ہدایت و رہنمائی انہی کو ملتی ہے جن میں ایمان کی طلب اور تڑپ ہوتی ہے وہ اسے طلبِ ہدایت کی نیت سے پڑھتے ،سنتے اور غور و فکر کرتے ہیں چنانچہ اللہ تعالی ان کی مدد فرماتا ہے اور ہدایت کاراستہ ان کیلئے ہموار کر دیتا ہے جس پر وہ چل پڑتے ہیں ورنہ جو اپنی آنکھوں کو ہی بند کر لیں ، کانوں میں ڈاٹ لگالیں اور عقل و فہم کو ہی بروئے کار نہ لائیں تو انہیں ہدایت کیوں کر نصیب ہوسکتی ہے ، جیسے فرمایا (قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھُدًی وَّ شِفَآئٌ وَالَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُوْنَ فِیْ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّ ھُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی اُوْلٰئِکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ)(سورۃ حم السجدۃ ،44) کہہ دو کہ جو ایمان لاتے ہیں ان کے لئے (یہ) ہدایت اور شفاء ہے۔ اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی (یعنی بہرا پن) ہے اور یہ ان کے حق میں