کتاب: متنازع مسائل کے قرآنی فیصلے - صفحہ 62
٭ جمہور مفسرین نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے۔ شمسی حساب سے ۳۰۰ اور قمری حساب سے ۳۰۹ سال بنتے ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ انہی لوگوں کا قول ہے جو ان کی مختلف تعداد بتلاتے تھے، جس کی دلیل اللہ کا یہ قول ہے ’’اللہ ہی ان کو ان کے ٹھہرے رہنے کی مدت کا بخوبی علم ہے‘‘۔ جس کا مطلب وہ مذکورہ مدت کی نفی لیتے ہیں۔ لیکن جمہور کی تفسیر کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب یا کوئی اور، اس بتلائی ہوئی مدت سے اختلاف کرے، تو آپ ان سے کہہ دیں کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ جب اس نے تین سو نو سال مدت بتلائی ہے تو یہی صحیح ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت غار میں رہے؟ قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا لَہٗ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ اَبْصِرْ بِہٖ وَاَسْمِعْ مَالَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لاَ یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا (۲۶) آپ کہہ دیں اللہ ہی کو ان کے ٹھہرے رہنے کی مدت کا بخوبی علم ہے ، آسمانوں اور زمینوں کا غیب صرف اسی کو حاصل ہے وہ کیا ہی اچھا دیکھنے سننے والا ہے٭۔ سوائے اللہ کے ان کا کوئی مدد گار نہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔ ٭ یہ اللہ کی صفت علم و خبر ہی کی مزید وضاحت ہے۔