کتاب: متنازع مسائل کے قرآنی فیصلے - صفحہ 48
قوت مراد ہے اور رکن شدید (مضبوط آسرا) سے خاندان، قبیلہ یا اسی قسم کا کوئی مضبوط سہارا مراد ہے۔ یعنی نہایت بے بسی کے عالم میں آرزو کر رہے ہیں کہ کاش میرے اپنے پاس کوئی قوت ہوتی یا کسی خاندان اور قبیلے کی پناہ اور مدد مجھے حاصل ہوتی تو آج مجھے مہمانوں کی وجہ سے یہ ذلت و رسوائی نہ ہوتی، میں ان بد کماشوں سے نمٹ لیتا اور مہمانوں کی حفاظت کر لیتا۔ جناب لوط علیہ السلام کی یہ آرزو اللہ تعالیٰ کے توکل کے منافی نہیں ہے بلکہ ظاہری اسباب کے مطابق ہے اور توکل علی اللہ کا صحیح مفہوم و مطلب بھی یہی ہے کہ پہلے تمام ظاہری اسباب و وسائل بروئے کار لائے جائیں اور پھر اللہ پر توکل کیا جائے۔ یہ توکل کا نہایت غلط مفہوم ہے کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جاؤ اور کہو کہ ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے۔ اس لئے جناب لوط علیہ السلام نے جو کچھ کہا، ظاہری اسباب کے اعتبار سے باکل بجا کہا۔ جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ کا پیغمبرجس طرح عالم الغیب نہیں ہوتا، اسی طرح وہ مختار کل بھی نہیں ہوتا، (جیسا کہ آج کل لوگوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے) اگر نبی دنیا میں اختیارات سے بہرہ ور ہوتے تو یقینا جناب لوط علیہ السلام اپنی بے بسی کا اور اس آرزو کا اظہار نہ کرتے جو انہوں نے مذکورہ الفاظ میں کیا۔ قَالُوْا یَالُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْآ اِلَیْکَ فَاَسْرِ بِاَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَلاَ یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ اِلاَّ