کتاب: متنازع مسائل کے قرآنی فیصلے - صفحہ 44
سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے پیغمبروں کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ابراہیم علیہ السلام غیب دان ہوتے تو بھنا ہوا بچھڑا بھی نہ لاتے اور ان سے خوف بھی محسوس نہ کرتے۔ ٭ اس خوف کو فرشتوں نے محسوس کیا، یا تو ان آثار سے جو ایسے موقعوں پر انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں یا اپنی گفتگو میں جناب ابراہیم علیہ السلام نے اس کا اظہار فرمایا، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے ﴿اِنَّ مِنْکُمْ وَجِلُوْنَ﴾ (الحجر: ۵۴) ’’ہمیں تو ڈر لگتا ہے‘‘ چنانچہ فرشتوں نے کہا ڈرو نہیں، آپ جو سمجھ رہے ہیں، ہم وہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ہم قوم لوط علیہ السلام کی طرف جا رہے ہیں۔ فَلَمَّا ذَہَبَ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ الرَّوْعُ وَجَآئَ تْہُ الْبُشْرٰی یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ (۷۴) جب ابراہیم کا ڈر خوف جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگے ٭۔ ٭ اس مجادلے سے مراد یہ ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں سے کہا کہ جس بستی کو تم ہلاک کرنے جا رہے ہو، اسی میں جناب لوط علیہ السلام بھی موجود ہیں۔ جس پر فرشتوں نے کہا ’’ہم جانتے ہیں کہ لوط علیہ السلام بھی وہاں رہتے ہیں لیکن ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان