کتاب: متنازع مسائل کے قرآنی فیصلے - صفحہ 43
سَلَامٌ مبتدا یا خبر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے، عبارت ہو گی أَمَرَکُمْ سَلَامٌ یا عَلَیْکُمُ سَلَامٌ ۔ ٭ جناب ابراہیم علیہ السلام بڑے مہمان نواز تھے۔ وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں اور کھانے پینے سے معذور ہیں، بلکہ انہوں نے مہمان سمجھا اور فوراً مہمانوں کی خاطر تواضع کیلئے بھنا ہوا بچھڑا لا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ نیز اس سے یہ معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو موجود ہو حاضر خدمت کر دیا جائے۔ فَلَمَّا رَآ اَیْدِیَہُمْ لاَ تَصِلُ اِلَیْہِ نَکِرَہُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃً قَالُوْا لاَ تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلیٰ قَوْمِ لُوْطٍ (۷۰) اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو انہیں انجان پا کر دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے٭، انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں٭۔ ٭ جناب ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھ ہی نہیں رہے تو انہیں خوف محسوس ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ چیز معروف تھی کہ آئے ہوئے مہمان اگر ضیافت سے فائدہ نہ اٹھاتے تو سمجھا جاتا تھا کہ آنے والے مہمان کسی اچھی نیت سے نہیں آئے ہیں۔ اس