کتاب: متنازع مسائل کے قرآنی فیصلے - صفحہ 42
الْمَنْصُوْرُوْنَ ۔ وَاِنَّ جُنُدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ (الصافات۱۷۱۔۱۷۳) اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے کہ وہ مظفر و منصور ہوں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب اور برتر رہے گا۔ وَلَقَدْ جَآئَ تْ رُسُلُنَآ اِبْرَاہِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَالُوْا سَلٰمًا قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآئَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ (۶۹) اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے٭ اور سلا م کہا٭، انہوں نے بھی جواب سلام دیا٭ اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے٭۔ ٭ یہ دراصل جناب لوط علیہ السلام اور ان کی قوم کے قصے کا ایک حصہ ہے۔ جناب لوط علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے۔ جناب لوط علیہ السلام کی بستی بحیرئہ میت کے جنوب مشرق میں تھی، جبکہ جناب ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں مقیم تھے۔ جب لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو ان کی طرف فرشتے بھیجے گئے۔ یہ فرشتے قوم لوط علیہ السلام کی طرف جاتے ہوئے راستے میں جناب ابراہیم علیہ السلام کے پاس ٹھہرے اور انہیں بیٹے کی بشارت دی۔ ٭ یعنی سَلَّمْنَا عَلَیْکَ سَلَامًا ’’ہم آپ کو سلام عرض کرتے ہیں‘‘۔ ٭ جس طرح پہلا سلام ایک فعل مقدر کے ساتھ منصوب تھا اسی طرح