کتاب: متنازع مسائل کے قرآنی فیصلے - صفحہ 27
دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔٭
٭ توبہ و استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو آدم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سیکھے، جیسا کہ سورئہ بقرہ ، آیت 37میں صراحت ہے (دیکھئے آیت مذکورہ کا حاشیہ) گویا شیطان نے اللہ کی نافرمانی کاارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ اس پر نہ صرف اڑ گیا بلکہ اس کے جواز و اثبات میں عقلی و قیاسی دلائل دینے لگا ۔ نتیجتاً وہ راندئہ درگاہ اور ہمیشہ کیلئے ملعون قرار پایا اور آدم علیہ السلام نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کااظہار اور بارگاہِ الہٰی میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا ۔ تو اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشان دہی ہوگئی ، شیطانی راستے کی بھی اور اللہ کے راستے کی بھی۔اور گناہ کے بعد احساس ندامت سے مغلوب ہوکر بارگاہِ الٰہی میں جھک جانا اور توبہ و استغفار کااہتمام کرنا، بندگان الٰہی کا راستہ ہے۔اللَّھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْہُمْ ۔
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃ اَیَّانَ مُرْسٰہَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ لاَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَا اِلاَّ ہُوَ ثَقُلَتْ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ لاَ تَاْتِیْکُمْ اِلاَّ بَغْتَۃً یَسْئَلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ