کتاب: متنازع مسائل کے قرآنی فیصلے - صفحہ 12
٭ اس آیت کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہود کے بڑے بڑے علما جب اپنے شاگردوں کو یہ سکھاتے کہ دن چڑھتے ایمان لاؤ اور دن اترتے کفر کرو تاکہ جو لوگ فی الواقع مسلمان ہیں وہ بھی مذبذب ہو کر مرتد ہو جائیں تو ان شاگردوں کو مزید یہ تاکید کرتے تھے کہ دیکھو صرف ظاہراً مسلمان ہونا، حقیقتاً اور واقعتا مسلمان نہ ہو جانا، بلکہ یہودی ہی رہنا۔ اور یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ جیسا دین، جیسی وحی و شریعت اور جیسا علم و فضل تمہیں دیا گیا ہے ویسا ہی کسی اور کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس معنی کی رو سے جملہ معترضہ کو چھوڑ کر عند ربکم تک کل کا کل یہود کا قول ہو گا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہودیو! تم حق کو دبانے اور مٹانے کی یہ ساری حرکتیں اور سازشیں اس لئے کر رہے ہو کہ ایک تمہیں اس بات کا غم اور جلن ہے کہ جیسا علم و فضل، وحی و شریعت اور دین تمہیں دیا گیا تھا اب ویسا ہی علم و فضل اور دین کسی اور کو کیوں دے دیا گیا۔ دوسرا تمہیں یہ اندیشہ اور خطرہ بھی ہے کہ اگر حق کی یہ دعوت پنپ گئی، اور اس نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں تو نہ صرف یہ کہ تمہیں دنیا میں جو جاہ و وقار حاصل ہے وہ جاتا رہے گا بلکہ تم نے جو حق چھپا رکھا ہے اس کا پردہ بھی فاش ہو جائے گا۔ اور اس بنا پر یہ لوگ اللہ کے نزدیک بھی تمہارے خلاف حجت قائم کر بیٹھیں گے۔ حالانکہ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ دین و شریعت اللہ کا فضل ہے اور یہ کسی کی میراث نہیں۔ بلکہ وہ