کتاب: متنازع مسائل کے قرآنی فیصلے - صفحہ 114
و نزدیک سیاہی چھا جاتی ہے۔ قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لاَ ضَرًّا اِلاَّ مَا شَآئَ اللّٰهُ وَلَوْکُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئِ اِنْ اَنَا اِلاَّ نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ (۱۸۸) آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں٭۔ ٭ یہ آیت اس بات میں کتنی واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں۔ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے لیکن ظلم اور جہالت کی انتہا ہے کہ اس کے باوجود اہل بدعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب باور کراتے ہیں۔ حالانکہ بعض جنگوں میں آپ کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قوم کیسے فلاح یاب ہو گی جس نے اپنی نبی کے سر کو زخمی کر دیا، کتب حدیث میں یہ واقعات بھی اور ذیل کے واقعات بھی درج ہیں)۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی تو آپ پورا ایک مہینہ سخت مضطرب اور نہایت پریشان رہے۔ ایک یہودی