کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 99
ہیں رضی اللہ عنہم (ایضاً ص 79‘ 80)
امام ابوالحسن رحمہ اللہ الا شعری کا عقیدہ
امام ابوالحسن رحمہ اللہ علی بن اسماعیل بن اسحاق الاشعری المتوفی 324 ھ علم کلام کے بانی اور علم و عقل میں درجہ امامت و اجتھاد پر فائز تھے۔ جن کی تصانیف کی تعداد تین سو بتلائی جاتی ہے۔ انہی میں عقیدہ کے موضوع پر " الإبانۃ من اصول الدیانۃ" ان کی معروف کتاب ہے۔ اسی کتاب میں مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں انہوں نے جو وضاحت فرمائی حسب ذیل ہے۔
فأما ماجری بین علی والزبیر و عائشۃ فانما کان علی تاویل و اجتھاد، و علی الإمام، و کلھم من أھل الاجتھاد و قد شھد لھم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالجنۃ والشھادۃ فدل علی أنھم کانوا علی حق فی اجتھاد ھم و کذلک ماجری بین علی و معاویۃ کان علی تاویل و اجتھاد و کل الصحابۃ أئمۃ مامونون غیر متھمین فی الدین‘ وقد اثنی اللّٰہ و رسولہ علی جمیعھم و تعبد نا بتوقیرھم و تعظیھم و موالا تھم والتبری من کل من ینقص احدا منھم رضی اللّٰہ عن جمیعھم‘‘ (الإبانۃ صفحہ225,224 )
’’اور جو کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ، زبیررضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین ہوا وہ تاویل و اجتھاد کی بنا پر تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ امام تھے اور وہ سبھی مجتہدین میں سے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں جنت اور شہادت کی خبر دی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے اپنے اجتھاد میں حق پر تھے، اسی طرح جو کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین رونما ہوا وہ بھی تاویل و اجتھاد کی بنا پر تھا، تمام صحابہ امام و مامون ہیں دین کے بارے میں متہم نہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی اور اس کے رسول ا نے تمام کی تعریف کی ہے اور ہمیں ان کی توقیرو تعظیم اور ان