کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 98
حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر آخری وقت آیا تو ان سے کہا گیا کہ آپ کوئی وصیت فرمائیں، انہوں نے فرمایا : اے میرے اللہ! میری خطا معاف فرما، لغزش سے درگزر فرما، اپنے حلم سے اس کی نادانی درگزر فرما جس کی امید تیرے سوا کسی اور سے وابستہ نہیں، تجھ سے بچ کر بھاگ جانے کی کوئی جگہ نہیں، وہ زمین پر اپنا چہرہ رکھ کر کہہ رہے تھے :اے اللہ! آپ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ اللہ اس کو نہیں بخشتا جس نے اس سے شرک کیا، اس کے علاوہ وہ جسے چاہے بخش دے۔ اے اللہ !مجھے ان میں سے کر دے جن کو تو بخشنا چاہتا ہے۔‘‘ (البدایہ ص 142ج 8‘ السیر ص ج 3 وغیرہ) ان سب امور سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی بالآخر پریشان تھے اور اپنے رب کے حضور معافی کے خواستگار تھے، اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ ان کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاصمت دنیا طلبی میں نہ تھی۔ بلکہ جو کچھ تھا بربنائے اجتہاد تھا۔ ربنا اغفرلنا ولإخواننا الذین سبقونا بالإیمان۔ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کا موقف شیخ الاسلام امام موفق الدین ابو محمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ مقدسی المتوفی 620ھ اہل سنت کے عقائد بیان کرتے ہوئے اپنے رسالہ لمعۃ الاعتقاد الھادی إلی سبیل الرشاد ‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’سنت پر عمل کا تقاضا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت و عقیدت رکھی جائے ان کے محاسن بیا ن کئے جائیں، ان کے لئے اللہ سے رحمت و بخشش کی دعا کی جائے، ان کی شان میں کوئی نازیبابات نہ کہی جائے، اور ان کے مابین جو اختلافات ہوئے ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے، ساتھ ہی ان کے افضل امت ہونے کا اعتقاد رکھا جائے۔ (لمعۃ الاعتقاد مترجم ص 77) اس کے بعد انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ازواج مطہرات کے مختصراً مناقب نقل کئے ہیں اور اس بحث کے آخر میں فرمایا ہے کہ ’’قرآن مجید میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل ہو جانے کے بعد اگر کوئی انہیں متہم کرے تو وہ کافر ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ تمام مومنوں کے ماموں کاتب وحی اور مسلم خلفاء میں سے