کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 97
دے رکھی ہے جائیں انہیں کہیں کہ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص دلا دیں میں اہل شام میں سے سب سے پہلے ان کی بیعت کر لوں گا (البدایہ ص 260ج 7) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف کے باوجود انہوں نے قیصر روم کو جب اس نے مسلمانوں کی باہمی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر حملہ کرنا چاہا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے لکھا :
واللّٰہ لإن لم تنتہ وترجع إلی بلادک یالعین! لأصطلحن أنا و ابن عمی علیک ولأخرجنک من جمیع بلادک ولأضیقن علیک الأرض بما رحبت ‘‘
(البدایۃ ص 119 ج8، تاج العروس ص 208ج 7)
اللہ کی قسم اگر تو باز نہ آیا اور اے لعین! اپنے علاقے کی طرف نہیں لوٹ جائے گا تو میں اپنے چچا زاد بھائی علی رضی اللہ عنہ سے صلح کرکے تیرے خلاف نکلوں گا۔ تجھے تیرے تمام شہروں سے نکال دوں گا اور تجھ پر زمین اپنی فراخی کے باوجود تنگ کر دوں گا‘‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ مکتوب بین دلیل ہے کہ ان کی باہمی لڑائی ذاتی دشمنی کی بنا پر نہیں، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قدردان تھے تبھی تو ان کے انتقال کی خبر پا کر آبدیدہ ہو گئے۔ ان کی اہلیہ نے کہا آپ ان سے لڑتے رہے ہیں اور آج خبر وفات سن کر رو رہے ہیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ویھک إنک لاتدرین مافقد الناس من الفضل والفقہ والعلم‘‘ تجھ پر افسوس، تو نہیں جانتی کہ لوگوں کا کس قدر فضیلت‘ فقہ اور علم میں نقصان ہوا ہے (البدایہ ص 130ج 8) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات پر ان کا رونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی روش پر نادم تھے۔ امام عبداللہ بن المبارک نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن یزید بن اسد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی مرض الموت میں حاضر ہوئے تو دیکھا وہ رو رہے تھے انہوں نے کہا اے امیر المومنین! آپ کیوں روتے ہیں ؟ اگر آپ فوت ہو گئے تو جنت میں جائیں گے اور اگر زندہ رہے تو لوگوں کو آپ کی ضرورت ہے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کے والد پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو وہ مجھے نصیحت کرتے تھے اور حجر رضی اللہ عنہ بن عدی کے قتل سے روکتے تھے (الزھد ص الاصابہ ص 336ج 6) گویا آپ قتل حجر رضی اللہ عنہ بن عدی پر بھی بالآخر پریشانی اور تأسف کا اظہار کرتے تھے