کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 95
ورسولہ‘‘ (منہاج السنۃ ص 234ج 2)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ آخر کار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت اور لڑائی سے بچنے کے طلب گار تھے۔ جیساکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ابتداء ہی سے جنگ سے گریزاں تھے، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے مابین لڑائی اگرچہ اجتہاد کی بنا پر ہوئی لیکن یہ اس نوعیت کی جنگ نہ تھی، جس میں حصہ لینے والے گویا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والے ہیں ‘‘ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بات بھی منقول ہے کہ وہ تو ان حروب میں علیحدہ رہنے والوں کے بارے فرمایا کرتے کہ یہ خوبی انہی کی ہے جس مقام پر عبداللہ رحمہ اللہ بن عمر اور سعد رضی اللہ عنہ بن مالک کھڑے ہیں اگر وہ اچھا ہے تو اس کا بہت بڑا اجر ہے اور اگر یہ برا ہے تو اس کا نقصان بہت کم ہے۔‘‘ (منہاج السنۃ ص 180ج 3 و ص 180ج 4‘ تاریخ اسلام للذہبی ص 553ج 1) حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کرتے کہ تمہارے باپ کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ معاملہ اس حد تک طویل ہو جائے گا، کاش تیرا باپ اس سے بیس سال پہلے مرگیا ہوتا۔ ( السنۃ لابن احمد ج 2ص 555، 566، منہاج ص 180ج 3) یہ بھی فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ معاملہ یہاں تک بڑھ جائے گا تو میں یہ اقدام نہ کرتا (ابن ابی شیبہ ج 15 ص 293) اس طرح یہ بھی فرمایا کاش مجھے میری ماں نہ جنتی اور کاش میں اس روز سے پہلے فوت ہو گیا ہوتا (التاریخ الکبیر للبخاری ج 6ص 384) حضرت ابوموسیٰ کو حکم مقرر کرتے ہوئے فرمایا: ’’خلصنی منھا ولو بعرق رقبتی‘‘ کہ جائیے اس معاملے میں میری جان چھڑا دیجیے اگرچہ میری گردن کی رگ کٹ جائے، اور یہ بھی کہ اگرچہ میری گردن گر جائے۔ و لو خر عنقی(الآثار لابی یوسف ص208، ابن ابی شیبۃ ص 293، ج 15) نیز یہ بھی کہ ’’وعلي رضي اللّٰہ عنہ فی آخر الأمر تبین لہ أن المصلحۃ فی ترک القتال اعظم منھا في فعلہ ‘‘کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پربالآخر یہ بات عیاں ہو گئی کہ لڑنے کی بجائے نہ لڑنے میں مصلحت زیادہ ہے۔ (منہاج ص 243ج 2)، یہاں تک کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو ناپسند مت کرو اگر تم نے انہیں گنوا دیا تو تم سروں کو دھڑ سے جدا ہوتے ہوئے دیکھو گے۔
(منہاج ص 180ج 3 وغیرہ)