کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 94
میسرہ فرماتے ہیں میں نے کہا حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کہاں ہیں تو انہوں نے جواب دیا وہ اس کے آگے جنت میں ہیں، میں نے کہا انہوں نے تو ایک دوسرے کو قتل کیا ہے تو مجھے جواب دیا گیا کہ ’’إنہم لقوا اللّٰہ فوجدوہ واسع المغفرۃ‘‘ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی تو اسے بڑا وسیع مغفرت والا پایا۔ (ابن ابی شیبہ ص 290ج 15‘ سنن سعید بن منصور ص 393ج 2 ابن سعد ص 264ج 3 ‘ السنن الکبری للبیہقی ج 8 ص 174، المعرفۃ والتاریخ ج 3ص 314، السیر ص 428ج 1) امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ہم أہل الجنۃ لقی بعضھم بعضاً فلم یفر أحد من أحد‘‘ کہ وہ سب جنتی ہیں وہ ایک دوسرے سے لڑے ان میں سے کوئی بھی میدان چھوڑ کر نہیں بھاگا ( البدایہ ص 278ج 7) حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز فرماتے ہیں میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس بیٹھے تھے میں نے سلام عرض کیا اور بیٹھ گیا۔ میں بیٹھا ہی تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا۔ ان دونوں کو ایک کمرے میں داخل کیا گیا اور دروازہ بند کر دیا گیا۔ میں دیکھ رہا تھا جلد ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ باہر آئے وہ فرما رہے تھے رب کعبہ کی قسم میرے حق میں فیصلہ ہوا۔ پھر جلد ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ باہر آئے اور وہ فرما رہے تھے رب کعبہ کی قسم مجھے معاف کر دیا گیا۔ (البدایہ ص 130ج 8)۔
ان اقوال اور رؤیا صالحہ سے مشاجرات میں تہ تیغ ہونے والوں کے بارے میں سلف کے موقف کی وضاحت ہو جاتی ہے اور اس سے یہ بات بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کے یہ باہمی معاملات کفر و اسلام یا معروف معنوں میں حق و باطل کے معاملات نہ تھے۔ بلکہ حق اور احق یا راجح و مرجوح کا معاملہ تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ
بل کان فی آخر الأمر یطلب مسالمۃ معاویۃ رضی اللّٰہ عنہ ومھادنتہ وأن یکف عنہ کما کان یطلب معاویۃ ذلک اول الأمر فعلم أن ذلک القتال وإن کان واقعاً باجتہاد فلیس ھو من القتال الذی یکون محارب أصحابہ محارباللّٰہ