کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 93
چاہئے۔
مقتولین کا حکم
جنگ جمل کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اس فتنہ کا قائد تو جنتی ہے مگر اس کی پیروی کرنے والے جہنمی ہیں، مگر حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس قول کی سند مرسل ہے اور اس کے متن میں نکارت پائی جاتی ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے اس بارے میں پناہ مانگتے ہیں کہ ہم حضرت زبیر رضی اللہ عنہ یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے رفقاء اور ہمنواؤں کو جہنمی قرار دیں ۔ ہم ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں اور ان سب کے بارے میں بخشش و مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔ (السیر ص 63ج 1) اس لئے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ و حضرت زبیر رضی اللہ عنہ یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی نہیں ان مشاجرات و مقاتلات میں حصہ لینے والے سبھی حضرات کے بارے میں جیسا کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا بخشش و مغفرت کی دعا ہی کرنا چاہئے۔ ربنا اغفرلنا ولإخواننا الذین سبقونا بالإیمان کا بھی بہر نوع یہی تقاضا ہے اور یہی تمام سلف کا موقف ہے۔اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جنگ صفین کی رات نکلے تو اہل شام کی طرف نظر اٹھا کر انہوں نے فرمایا :اللھم اغفرلی ولھم۔ اے اللہ !مجھے اور انہیں معاف فرما دے۔ (ابن ابی شیبۃ ص 297ج 15) صحیح سند سے یزید بن الاصم سے منقول ہے انہوں نے فرمایا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صفین کے مقتولین کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’قتلانا وقتلاھم فی الجنۃ‘‘ کہ ہمارے اور ان کے مقتولین جنتی ہیں (ابن ابی شیبہ ج 15 ص 303، مجمع الزوائد ج9 ص 357، سنن سعید بن منصور ص 398ج 2) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح منقول اس قول سے پہلے ضعیف قول کا بطلان بالکل واضح ہے۔ اسی طرح صحیح سند سے منقول ہے کہ عمرو بن شرحبیل ابو میسرہ جو کوفہ کے نہایت عابد و زاہد اور ثقہ بزرگ تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود کے افضل ترین تلامذہ میں ان کا شمار ہوتاتھا کابیان ہے کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں جنت میں ہوں وہاں میں نے خوبصورت مکان دیکھے۔ میں نے پوچھا یہ کن کے مکانات ہیں تو مجھے کہا گیا کہ ذی الکلاع اور حوشب کے ہیں ۔ یہ دونوں وہ تھے جو جنگ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور دوران جنگ قتل ہو گئے تھے ابو