کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 91
شہادت کا رتبہ حاصل نہ کرتے۔ اسی طرح اگر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل تاویل کی غلطی اور واجب کی ادائیگی میں کوتاہی شمار ہوتا تو بھی ان کو شہادت کا مقام حاصل نہ ہوتا۔ کیونکہ شہادت تو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے۔ جب کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں قتل ہوا ہو۔ لہذا ان حضرات کے باہمی معاملہ کو اسی عقیدہ پرمحمول کرنا واجب ہے جسے ہم نے بیان کیا ہے اور اسی بات پریہ دلیل بھی ہے جو صحیح اور مشہور ہے اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ’’ زبیر کا قاتل جہنمی ہے‘‘ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو‘‘ جب معاملہ یہ ہے تو ثابت ہو گیا کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اس لڑائی کے سبب گنہگار نہیں تھے، اگر ایسا نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو شہید نہ فرماتے اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے قاتل کو جہنمی قرار نہ دیتے۔ اسی طرح جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان جنگوں میں کنارہ کش رہے۔ انہیں بھی تاویل میں خطا کار نہیں کہا جا سکتا، بلکہ ان کا طرز عمل بھی اس اعتبار سے درست تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اجتہاد میں اسی رائے پر قائم رکھا۔ جب یہ حقیقت واقعی ہے تو اس وجہ سے ان حضرات پر لعن و طعن کرنا، ان سے برأت کا اظہار کرنا اور انہیں فاسق قرار دینا، اور ان کے فضائل اور جہاد اور ان کی عظیم دینی خدمت کو کالعدم قرار دینا کسی طرح درست نہیں ۔ بعض علماء سے پوچھا گیا کہ کشت و خون کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی مشاجرات میں ہوا تو انہوں نے جواباً یہ آیت پڑھی۔ ’’یہ ایک امت تھی جو گزر گئی اس کے اعمال اس کے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں، اورتم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔‘‘ بعض حضرات سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ ایسے خون ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں کو اس میں رنگنے سے بچایا، اب میں اپنی زبان کو ان سے آلودہ نہیں کروں گا۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ ان میں سے کسی ایک فریق کو کسی معاملے میں یقینی طور پر خطا کار ٹھہرانے کی غلطی میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا......حضرت حسن رحمہ اللہ بصری سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باہمی لڑائیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا۔ یہ ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہ رضی اللہ عنہم موجود اور ہم غائب۔ وہ سب حالات