کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 90
’’کہ رہی یہ بات کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم باہمی لڑائیوں کے فتنہ میں مبتلا رہے تو ان کایہ اقدام بطور اجتہاد تھا اور اجتہاد پر عمل واجب ہے، اور واجب پر عمل فسق و فجور کا باعث نہیں ۔‘‘ اس لئے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر کوئی حرف نہیں آتا، علامہ موصوف نے اپنے مخصوص اسلوب میں اور اصول فقہ کی زبان میں اس اشکال کا جو جواب دیا بلا ریب لاجواب ہے، مگر جن طبائع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بغض و عناد ہے وہ کسی دلیل سے مطمئن نہیں ہوتے۔ ان کے دل کا روگ حقیقت تسلیم کرنے سے مانع ہے وہ بلاشبہ اسی مرض میں مبتلا ہیں، جس مریض اور مرض کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’فی قلوبھم مرض فزادھم اللّٰہ مرضاً۔‘‘ اعاذاللّٰہ منہ۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ کا تبصرہ
امام ابوعبداللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی رحمہ اللہ المتوفی 671ھ نے اپنی مشہور تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل سنت کے موقف کی جو وضاحت فرمائی اور اس حوالے سے جو تبصرہ سورہ حجرات کی آیت کے تحت انہوں نے کیا وہ قابل مراجعت ہے۔ ہم اختصاراً اسے قارئین کی خدمت میں پیش کئے دیتے ہیں :
’’یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے، اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا۔ اور ان سب کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی تھا۔ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمارے امام ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات کے بارے میں اپنی زبان کو بند رکھیں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہترین طریقے پرکریں کیونکہ شرف صحبت بڑی حرمت کی چیز ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے، اس کے علاوہ متعدد اسانید سے یہ حدیث ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ طلحہ رضی اللہ عنہ روئے زمین پر چلنے والے شہید ہیں ۔ لہذا اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا جنگ کے لئے نکلنا گناہ اور نافرمانی تھا تو اس جنگ میں مقتول ہو کر وہ ہرگز