کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 89
میں سے کسی نے اختلافات اور فتن میں حصہ لیا ہے یا نہیں لیا، جیسے شہادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فتنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اختلاف اور جنگ جمل کا قصہ، ان کے ساتھ حسن ظن رکھنے اور ان کے ان معاملات کو اجتہا دپر محمول کرنے کی بنا پر یہ عقیدہ رکھنا واجب ہے، کیونکہ ان تمام امور کا مبنی اجتہاد ہے۔ اور (علی اختلاف القولین) ہر مجتہد راستی پر ہے یاایک راستی پر ہے اور صاحب خطا معذور بلکہ مستحق اجر ہوتا ہے۔ اہل سیر جو کچھ نقل کرتے ہیں وہ قابل التفات نہیں کیونکہ وہ صحیح نہیں اور اگر بالفرض صحیح ہے تو اس کی صحیح تاویل کی جا سکتی ہے حضرت عمر رحمہ اللہ بن عبدالعزیز نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہماری تلواروں کو ان کے خونوں سے بچائے رکھا ہے تو ہم اپنی زبانوں کو ان سے کیوں رنگیں ۔ دین کے حاملین پر طعن و تشنیع کرنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے، جس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں طعن کیا گویا اس نے اپنے دین میں طعن کیا۔ اس لئے طعن کا دروازہ کلیۃً بند ہونا چاہئے، بالخصوص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ‘ عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص اور ان جیسے دوسرے حضرات کے معاملہ میں بحث سے گریز کرنا چاہئے۔ الخ
(الیواقیت ص 226 ج 2)
علامہ شعرانی رحمہ اللہ کا بھی وہی موقف ہے جو اہل سنت کا موقف ہے کہ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کی باہمی رنجشوں سے کف لسان واجب ہے اور اسی حوالے سے ان میں طعن و ملامت کرنا خود اپنے دین میں طعن کرنے کے مترادف ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
علامہ محب رحمہ اللہ کا فرمان
علامہ محب اللہ بن عبدالشکور البہاری المتوفی 1119ھ کی مسلم الثبوت اصول فقہ کی مشہور کتاب ہے جو ایک متن کی حیثیت رکھتی ہے اور مدارس عربیہ کے نصاب میں ایک عرصہ سے شامل ہے۔ اس کتاب میں علامہ موصوف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر بحث کے دوران میں لکھتے ہیں ۔
’’وأما الدخول فی الفتن فبالاجتہاد والعمل بہ واجب اتفاقاً ولاتفسیق بواجب ‘‘ (مسلّم مع شرح فواتح الرحموت ص 158ج 2)