کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 88
قال العلماء إذا ذکر الصحابۃ بسوء کإضافۃ عیب إلیھم وجب الامساک عن الخوض فی ذٰلک بل وجب إنکارہ بالید ثم اللسان ثم القلب علی حسب الاستطاعۃ کسائر المنکرات بل ھذا من أشرھا وأقبحھا (الزواجر ص 380، 381ج 2)
علماء نے کہا کہ جب صحابہث کو برے طور پر ذکر کیا جائے جیسے ان کی طرف کسی عیب کی نسبت کی جائے تو اس میں مشغول ہونے سے اجتناب واجب ہے اور حسب استطاعت دوسری منکرات کی طرح اس منکر کو روکنے لیے بھی ہاتھ یا زبان یا دل سے کوشش کی جائے بلکہ یہ منکر تو تمام منکرات سے شرانگیز اور انتہائی قبیح ہی۔‘‘
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں، جو بھی دقت نظر سے دیکھے گا وہ جان لے گا کہ ان سے یہ واقعات بڑی بحث اور غورو فکر کے بعد صادر ہوئے ہیں، اس لیے سلف و خلف میں ائمہ مسلمین نے ان حروب میں انہیں معذور قرار دیا ہے۔کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء نے بھی انہیں معذور سمجھا ہے، لہٰذا کسی مسلمان کے لیے ان دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک پر اعتراض کی گنجائش نہیں، بلکہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ امام حق حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے ان سے لڑنے والے باغی تھے اور فریقین معذور و ماجور تھے اور جو بھی اس میں کسی قسم کے شک کا مرتکب ہے وہ گمراہ اور جاہل ہے یا معاند ہے اور وہ قابل التفات نہیں ۔(تطھیر الجنان 38 )
علامہ شعرانی رحمہ اللہ کا فرمان
علامہ ابوا لمواہب عبدالوہاب بن احمد الانصاری الشعرانی رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب ’’الیواقیت والجواہر‘‘ میں چوالیسویں بحث مستقل طور پر مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں قائم کی ہے، جس کاخلاصہ حسب ذیل ہے۔
’’چوالیسویں مبحث اس بار ے میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین ہونے والے اختلافات سے خاموشی اختیار کرنا واجب ہے۔ اور ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ وہ سب ماجور ہیں ۔ کیونکہ یا وہ باتفاق اہل سنت سب کے سب عادل ہیں ۔ خواہ ان