کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 87
لھم، والکف عن الطعن فیھم والثناء علیھم‘‘ (الصواعق ص 208) خوب جان لو کہ اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عادل قرار دے اور ان میں طعن و تشنیع کرنے سے اجتناب کرے اور ان کی تعریف و ثناء بیان کرے اس کے بعد انہوں نے قرآن مجید‘ احادیث نبویہ اور اقوال سلف سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت بیان کی اور مزید کہا کہ : ’’ومما یوجب أیضاً الإمساک عما شجر أی وقع بینھم من الاختلاف والاضطراب صفحاً عن أخبار المؤرخین سیماً جھلۃ الروافض وضلال الشیعۃ والمبتدعین القادحین فی أحد منہ‘‘ (أیضا ص 216) ’’اور یہ بھی واجب ہے کہ مؤرخین بالخصوص جاہل رافضیوں اور گمراہ شیعوں کی ان اخبار سے اعراض کرتے ہوئے جن سے کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی بھی تنقیص ہوتی ہو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان رونما ہونے والے اختلافات سے خاموشی اختیار کی جائے‘‘ بلکہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ان واقعات کا کسی کتاب میں درج ہونا کافی نہیں بلکہ دیکھنا چاہئے کہ وہ صحیح بھی ہیں یا نہیں ۔ اگرکوئی قابل اعتراض بات ثابت ہو تو ضروری ہے کہ اس کی کوئی اچھی تاویل کی جائے اور اس کا کوئی صحیح مخرج تلاش کیا جائے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان کے یہی مطابق ہے۔ اسی طرح انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے محاربہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موقف درست تھا اور وہ دوہرےاجرکے مستحق ہیں جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس بارے اجتہادی خطا ہوئی تاہم وہ ایک گنا اجر کے مستحق ہیں ۔ (ایضاً ص 217) اور یہی کچھ انہوں نے ذرا تفصیل سے ’’تطہیر الجنان واللسان عن الخطور والتفوہ بثلب سیدنا معاویۃ بن ابی سفیان ‘‘ ( ص 31، 32، 15)میں فرمایا ہے بلکہ ’’الزواجر عن اقتراف الکبائر ‘‘ میں فرماتے ہیں :