کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 86
تم ان امور کو تقدیر کے مطابق ہی سوچو اور ان کے متعلق وہی روش اختیار کروجو ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کی تھی۔ اور ان بیوقوف لوگوں سے نہ ہو جاؤ جنہوں نے اپنی زبانیں اور قلمیں ایسی بحث میں آزاد چھوڑ رکھی ہیں، جس میں کوئی فائدہ نہیں ۔ اور نہ یہ دنیا میں مفید ہے نہ آخرت میں ۔ اور برگزیدہ اماموں اور شہروں کے فقہاء کو دیکھو انہوں نے ایسی خرافات اور ایسی حماقتوں کی طرف توجہ دی ہے؟ بلکہ انہوں نے معلوم کر لیا ہے کہ یہ صرف جاہلیت کی عصبیت اور باطل کی حمایت ہے اور سوائے تفرقہ اندازی اور بے اتفاقی اور پیروی خواہشات کے اس کا اور کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور جو ہو چکا سو ہوچکا۔ اور اخباری لوگوں نے جو کہنا تھا وہ کہا، سویا تو خاموش رہو یا پھر اہل علم کی اقتداء کرو اور مؤرخین اورا دباء کی یا واگوئی کو چھوڑو اللہ ہم پر اور تم پر بھی اپنی رحمتیں مکمل فرمائے۔ (العواصم من القواصم مترجم ص 372‘ 373) علامہ ابن العربی رحمہ اللہ نے ’’العواصم‘‘ میں اس بحث کے دوران میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویۃ رضی اللہ عنہ کے موقف کی وضاحت کی ہے اور ان پر واردہ شدہ اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ اس ضمن میں ان سے کچھ فروگزاشتیں بھی ہوئیں، مگر مشاجرات کے سلسلے میں ان کا یہ موقف بالکل اہل سنت کے مطابق ہے جیسا کہ متعدد ائمہ کرام کے اقوال سے آپ پڑھ آئے ہیں کہ ان اختلافات سے سکوت ہی بہتر ہے۔ ان کو برسر منبر و محراب بیان کرنا‘ امت کے مابین تفرقہ بازی کا باعث اور صحابہ کرام کے بارے میں بدگمانی پھیلانے کے مترادف ہے۔ اعاذ نا اللّٰہ منہ۔ علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کا بیان علامہ احمد رحمہ اللہ بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی المکی المتوفی 974ھ اپنی مشہور کتاب ’’ الصواعق المحرقۃ فی الردعلی اھل البدع والزند قۃ‘‘ میں مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ و مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اعلم ان الذی أجمع علیہ أھل السنۃ والجماعۃ أنہ یجب علی کل مسلم تزکیۃ جمیع الصحابۃ بإثبات العدالۃ