کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 84
جو بھی موقف ہے وہ باطل ہے پہلا مذہب ہی صحیح اور معتبر ہے کہ سب صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں ۔ یہی جمہور سلف و خلف کا قول ہے جیسا کہ علامہ الآمدی رحمہ اللہ اور ابن الحاجب رحمہ اللہ نے کہا ہے بلکہ آمدی رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ یہی مختار قول ہے اور ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں اس پر اہل حق یعنی اہل سنت والجماعہ کا اجماع نقل کیا ہے کہ سب صحابہ عادل ہیں خواہ وہ فتنہ میں مبتلا ہوئے یا نہیں ہوئے، ان کے ساتھ حسن ظن کایہی تقاضاہے اور ان کے یہ معاملات اجتہاد کی بنا پر تھے، اس کی بنیاد اسی اصول پرہے کہ ہر مجتہد مصیب ہے یا یہ کہ مصیب تو ایک ہے اور مجتہد خطاکرنے والا معذور بلکہ اجر کا مستحق ہے۔‘‘ بلکہ اس سے قبل انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ وبالجملۃ فترک الخوض فی ھذا ونحوہ متعین‘‘ ’’کہ ان کے باہم کے معاملات میں بحث وتمحیص کو ختم کرنا ہی متعین ہے۔‘‘ اسی طرح ’’آداب المحدث‘‘ کے تحت خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کے باہمی مشاجرات سے اجتناب کرنا چاہئے اور حوادثات کو ذکر نہیں کرنا چاہئے۔ (فتح المغیث ص 269ج 3) اس کے علاوہ اپنی ایک اور مشہور تصنیف ’’الااعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ‘‘ ص 64 میں بھی فرمایا ہے کہ ’’أمرنا بہ من الإمساک عما کان بینھم‘‘ کہ ان کے آپس کے معاملات میں ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ کا فرمان
علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام المتوفی 861 ھ شرح مسامرہ میں فرماتے :
واعتقاد أھل السنۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم وجوباً باثبات اللّٰہ انہ لکل منھم، والکف عن الطعن فیھم، والثناء علیھم کما أثنی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ۔۔۔۔۔۔ وأثنی علیھم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔۔ وما جری بین معاویۃ وعلی من الحروب کان مبنیاً علی الاجتہاد لامنازعۃ فی الإمامۃ‘‘