کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 83
دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں طعن و ملامت کی جائے، بلکہ انھیں مجتہد مخطئ کے حکم میں ماجور و معذور سمجھا جائے۔ حافظ سخاوی رحمہ اللہ کا فرمان علامہ ابو عبداللہ بن عبدالرحمن السخاوی المتوفی 902ھ نے عدالت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بحث کے دوران میں لکھا ہے کہ علامہ المازری نے ’’شرح البرہان‘‘ میں کہا ہے کہ ہم جو یہ کہتے ہیں کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں تو اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل ملازمت و مصاحبت حاصل ہے اور جنہوں نے مشکلات میں آپکے ساتھ مل کر جہاد کیا اور آپ کا دفاع کیا۔ لیکن علامہ المازری رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے یہ بات نہیں کی۔ علامہ العلائی فرماتے ہیں کہ یہ موقف غریب ہے کہ اگر یہی موقف اختیار کیا جائے تو حضرت وائل رضی اللہ عنہ بن حجر‘ مالک رضی اللہ عنہ بن الحویرث‘ عثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص وغیرہ جو وفد کی صورت میں آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور تھوڑی مدت ٹھہر کر واپس چلے گئے۔ یا جن سے ایک دو روایات ہی منقول ہیں سب کی عدالت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ اس پر مزید تبصرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں : وبالجملۃ فما قالہ المازری منتقد بل کل ماعدا المذہب الأول القائل بالتعمیم باطل والأول ھو الصحیح بل الصواب المعتبر، وعلیہ الجمہور کما قال الآمدي وابن الحاجب یعني من السلف والخلف، زاد الآمدی وھوالمختار، وحکی ابن عبدالبر فی الاستیعاب إجماع أھل الحق من المسلمین، وھم أہل السنۃ والجماعۃ۔ علیہ، سواء من لم یلابس الفتن منھم أو لابسھا إحسانا للظن بھم، وحملاً لھم فی ذٰلک علی الاجتہاد، فتلک أمور مبناھا علیہ وکل مجتہد مصیب أوالمصیب واحد والمخطئ معذور بل مأجور، الخ (فتح المغیث ص 100ج 4) ’’خلاصہ کلام یہ کہ المازری رحمہ اللہ نے جو کہا، اس پر تنقید کی گئی ہے بلکہ پہلے مذہب کے علاوہ