کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 82
تعالیٰ عن المخطئ فی الاجتہاد، بل ثبت أنہ یؤجر أجرا واحداً وان المصیب یؤجرأجرین‘‘
(فتح الباری ص 34ج 13)
’’اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بنا پران میں کسی ایک صحابی پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے، اگرچہ یہ معلوم ہو جائے کہ ان کا موقف باطل پر تھا کیونکہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بنا پر حصہ لیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجتہد مخطی کو معاف فرما دیا ہے بلکہ یہ ثابت ہے کہ اس کے اجتہاد میں خطا ہو جائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا اور جس کا اجتہاد درست ہو گا اسے دو گنا اجر ملے گا۔‘‘
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
وذھب جمھور أھل السنۃ الی تصویب من قاتل مع علی لامتثال قولہ تعالیٰ و ان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا الآیۃ ففیھا الأمر بقتال الفئۃ الباغیۃ، وقد ثبت أن من قاتل علیاً کانوا بغاۃ، و ھؤلاء مع ھذا التصویب متفقون علی انہ لا یذم واحد من ھؤلاء بل یقولون اجتھدوا فاخطؤا۔۔ ألخ۔(فتح الباری ص 67ج 13)
’’جمہور اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے فرمان و ان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا میں جو باغی جماعت سے قتال کا حکم ہے اس کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمنوا حق پر تھے اور جنھوں نے ان سے لڑائی کی وہ باغی تھے۔ اس کے باوجود جمہور اس پر متفق ہیں کہ ان میں سے کسی کی مذمت نہ کی جائے بلکہ یہ کہا جائے کہ انھوں نے اجتہاد کیا مگراس میں خطا کے مرتکب ہوئے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی اہل سنت کا مسلک یہی بیان فرما رہے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی معاملات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موقف حق تھا مگر اس کا یہ تقاضا نہیں کہ ان کے مقابلے میں