کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 81
اس نے اختیار کیا ہے، یہی رائے دین کے زیادہ موافق اور مسلمانوں کے لئے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ گویا اس کے برعکس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں لب کشائی کرنا اور انہیں مورد الزام ٹھہرانا نہ دین کی کوئی خدمت ہے اور نہ ہی اس میں مسلمانوں کی بھلائی کا کوئی پہلو ہے۔ اس لئے بعض حضرات کا اپنی سادہ لوحی یا بے خبری میں ان واقعات پر کان دھرنا اور بعض مدعیان علم و فہم کا بڑی چابکدستی سے ان کو بیان کرنا اور یہ سمجھنا کہ ہم بھی خدمت دین میں مصروف ہیں ۔ بدترین دھوکا ہے۔ یخادعون اللّٰہ والذین اٰمنوا ومایخدعون إلا أنفسھم۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا فرمان حافظ الدنیا امام ابو الفضل احمد رحمہ اللہ بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی المتوفی852ھ ’’الإصابۃ في تمییز الصحابۃ‘‘ میں فرماتے ہیں ۔ والظن بالصحابۃ فی تلک الحروب أنھم کانوا فیھا متأولین وللمجتھد المخطئ أجر وإذا ثبت ھذا فی حق آحاد الناس فثبوتہ للصحابۃ بالطریق الاولی۔‘‘ (الإصابۃ ج 7ص 148) ’’ان لڑائیوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ ان میں تأویل کرنے والے تھے۔ مجتہد اگر اجتہاد میں خطا کر جائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ جب یہ حکم کسی ایک مجتہد کے لئے ثابت ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں یہ حکم بالا ولی ثابت ہوا۔‘‘ اس لئے اگر کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے اجتہاداً خطا ہوئی تو وہ پھر بھی مستحق اجر ہے نہ کہ مستوجب مؤاخذہ۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ کے کلام میں اس کی مزید تفصیل گزر چکی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسی بحث کے ضمن میں ایک مقام پر رقمطراز ہیں ۔ واتفق أہل السنۃ علی وجوب منع الطعن علی أحد من الصحابۃ بسبب ما وقع لھم من ذلک ولوعرف المحق منھم لأنھم لم یقاتلوا فی تلک الحروب الاعن اجتہاد وقدعفا اللّٰہ