کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 80
سے دین غالب ہوا اور انہی کی زبانوں سے دین پھیلا، اگر ہم ان آیات کی تلاوت کریں اور ان احادیث کو بیان کریں جو ان کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں تو بات لمبی ہو جائے گی، یہ چند کلمات ایسے ہیں کہ جو ان کے خلاف عقیدہ رکھے گا وہ گمراہی اور بدعت میں مبتلا ہو گا دیندار کو چاہئے کہ اس کو گرہ لگا لے اور جوصحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین وقائع رونما ہوئے ان سے زبان کو روک لے۔ یہ وہ خون ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک صاف رکھا ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ اپنی زبانوں کو اس سے آلودہ نہ کریں ۔‘‘ (بحوالہ تحریر الاصول مع شرح تقریر الاصول ج 2ص 261-260) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل سنت کے جس عقیدہ کی نشاندہی علامہ السبکی رحمہ اللہ نے کی ہے، اس کی وضاحت پہلے بھی ائمہ کرام کے حوالہ سے گزر چکی ہے البتہ علامہ نووی رحمہ اللہ کی طرح جوانہوں نے فرمایا کہ ان محاربات میں ایک تیسرا فریق بھی تھا جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے علیحدہ رہا، محل نظر ہے، یہی فریق اکثریت میں تھا اور ان کی علیحدگی فتنہ سے بچنے کے لئے تھی جیسا کہ پہلے باحوالہ گزر چکا ہے۔ واللہ اعلم۔ علامہ الآمدی رحمہ اللہ کا فرمان علامہ سیف الدین ابو الحسن علی رحمہ اللہ بن أبی علی محمد الآمدی المتوفی :631ھ اپنی معروف کتاب’’ الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر بحث کرنے اور مبتدعین کے افکار کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’وعندذلک فالوا جب أن یحمل کل ماجری بینھم من الفتن علی أحسن حال وان کان ذلک انما مما أدی الیہ اجتہاد کل فریق من اعتقادہ أن الواجب ما صار الیہ، أنہ أوفق للدین وأصلح للمسلمین ‘‘ (الأحکام ج 2 ص 129، 130) ’’اس لئے واجب ہے کہ صحابہ کے مابین جو فتنہ رونما ہوا اسے اچھے محمل پر محمول کیا جائے اور یہ اگرچہ اجتہاد کی بنا پر ہر فریق کے اعتقاد کے مطابق ہوا کہ واجب وہی ہے جو