کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 79
یہ بھی اعتقاد ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ امام حق تھے اور وہ مظلوم شہید ہوئے اللہ تعالیٰ نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو بالفعل ان کے قتل کرنے سے محفوظ رکھا۔ [1] ان کو شہید کرنے والا متعنت شیطان تھا کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے آپ کے قتل پر رضامندی ثابت نہیں، بلکہ سب صحابہ سے اس بارے میں انکار ثابت ہے۔ پھر حضرت عثمان رحمہ اللہ کے قصاص کا مسئلہ اجتہادی تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ تاخیر میں مصلحت ہے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے تھی کہ قصاص جلد لینے میں مصلحت ہے۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا، اور ان شاء اللہ ان میں ہر ایک اجر کا مستحق ہو گا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد امام حق حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء تاویل کرتے تھے۔اور ان میں سے وہ صحابہ بھی تھے جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے فریقین سے علیٰحدہ رہے اور کسی ایک فریق کے ساتھ ملنے سے رک گئے ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا وہ سبھی عادل تھے اور دین کو نقل کرنے والے اور دین پر عمل کرنے والے تھے انہی کی تلوار
[1] علامہ سبکی رحمہ اللہ کے الفاظ یہاں :’’من مباشرۃ قتلہ‘‘ ہیں کہ بالفعل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عثمان کے قتل میں شریک نہ تھے۔ یہ رائے نسبتاً اس رائے سے زیادہ حقیقت پسندانہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اقدام کرنے والوں میں کوئی بھی صحابی نہ تھا، سبائیوں کی فتنہ پردازی اور ان کے پروپیگنڈہ سے بعض صحابہ کرام بھی متاثر ہوگئے تھے اور انھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سبائی اقدام میں حصہ بھی لیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲعنہا کے خلاف رأس المنافقین عبداﷲ بن ابی کی ہرزہ سرائی ا ور یاوہ گوئی سے بعض مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی متاثر ہوگئے تھے، انہی میں ایک عبدالرحمٰن بن عدیس بھی تھے جو بیعت رضوان میں شریک ہوئے، جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: لا یدخل النار من اصحاب الشجرۃ احد الذین بایعوا تحتھا‘‘کہ جنھوں درخت کے نیچے بیعت کی ان میں سے کوئی بھی آگ میں نہیں جائے گا۔ (صحیح مسلم، الصحیحۃ رقم(2160:۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیح فرمان کے بعد ہمارا تو یہی عقیدہ و ایمان ہے کہ وہ اور دیگر بعض صحابہ جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ و فساد میں شریک ہوئے، اسباب مغفرت میں سے کسی سبب کی بنا پر یقینا مغفور ہیں اور عنداﷲ قابل مواخدہ نہیں ۔ حضرت ابن رضی اللہ عنہ عدیس اسی فتنہ سے متاثر ہوئے، مگر کسی صحیح روایت میں مباشرۃً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں ان کی شراکت ثابت نہیں، اسی طرح عمرو رضی اللہ عنہ بن الحمق کا قتل میں شراکت کا جو ذکر ہے وہ الواقدی سے مروی ہے۔(طبقات ابن سعد ص 73ج 3) اور واقدی محدثین کرام کے ہاں اس قابل نہیں کہ اس پر اعتماد کیا جائے۔