کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 78
’’واقعہ صفین کے بعد لوگ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئے ایک جماعت اہل سنت کی تھی، وہ اہل علم ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے درمیان ہونے والے اختلافات سے گریز کرتے ہیں جیسے حضرت سعد‘ عبداللہ بن عمر‘ محمد بن مسلمہ اور ایک امت ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے رافضیوں اور ناصبیوں کے نظریات کو بیان کیا ہے۔ جس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بن حُد یج حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف رکھتے اور ان کے حق میں نازیبا کلام کرتے، حافظ ذہبی اسی ضمن میں لکھتے ہیں :
قدکان بین الطائفتین من أھل الصفین ماھوأبلغ من السب، السیف فإن صح شیء، فسبیلنا الکف والاستغفار للصحابۃ ولانحب ماشجر بینھم ونعوذ باللّٰہ منہ ونتولی أمیر المؤمنین علیاً۔( السیر ج 3ص 39)
’’اہل صفین میں فریقین کے مابین سب سے بڑھ کر سیف و سنان کی نوبت آئی اگر اس کے متعلق کوئی بات صحیح ثابت ہو تو ہمارا راستہ خاموشی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے بخشش طلب کرنا ہے جو ان کے مابین جھگڑا رونما ہوا ہم اسے پسند نہیں کرتے اللہ کی اس سے پناہ لیتے ہیں اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ گویا فریقین میں سے کسی نے اگر زبان سے اپنے مدمقابل کو برا کہا تو یہ ان کا باہمی آپس کا معاملہ ہے، ان کے مابین تو زبان سے بڑھ کر سیف وسنان کا معاملہ ہوا۔ مگر ہمیں بہر نوع خاموش رہنا ہے اورسب کے لئے دعائے مغفرت ہی کرنا ہے۔
علامہ سبکی رحمہ اللہ کی وضاحت
علامہ تاج الدین عبدالوہاب رحمہ اللہ بن علی السبکی المتوفی 771ھ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر بحث کے دوران مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
’’ہم ان کے آپس کے معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان لوگوں سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں جو ان میں طعن وتشنیع کرتے ہیں، ہمارا عقیدہ ہے کہ ان میں طعن کرنے والا گمراہ اور خسران مبین کا مرتکب ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا