کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 5
کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف مصنف: ارشاد الحق اثری پبلیشر: ادارہ علوم الاثریہ، فیصل آباد ترجمہ: پیش لفظ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی اٰلہٖ وصحبہ ومن تبعھم إلی یوم الدین، أما بعد -: صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم ایک ایسی مقدس و محترم جماعت کا نام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پوری امت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا واسطہ ہیں ۔ جس کے بغیر نہ قرآن پاک ہاتھ آ سکتا ہے نہ ہی قرآن کا بیان‘ جسے ہم سنت و حدیث سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اول وہلہ میں انہیں ’’خیرامت‘‘ اور ’’امۃ وسط‘‘ کے لقب سے نوازا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو یہ ڈیوٹی اور ذمہ داری سونپ دی کہ ’’بلغوا عنی ولوآیۃ‘‘ کہ میری طرف سے امت کو پہنچا دو اگرچہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔ آیت سے مراد قرآن پاک کی آیت بھی ہے آپ کی حدیث و سنت بھی اگرچہ وہ مختصر جملہ ہی کیوں نہ ہو۔ اور آپ کا معجزہ بھی جو آپ کی نبوت و رسالت کی بین دلیل و برھان ہے، بلکہ حجۃ الوداع کے عظیم اجتماع میں اس جماعت کو مخاطب ہو کر فرمایا ’’فلیبلغ الشاھد الغائب‘‘ کہ حاضرین میری باتیں غائبین تک پہنچا دیں ۔ اس کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی تمام تر تعلیمات کو پوری دنیا میں پھیلایا۔ اور جو ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ذمہ لگائی تھی اسے بکمال و تمام پورا کیا۔ ادھر دشمنان دین نے بھی سب سے پہلے صحابہ کرام کو ہی ہدفِ تنقید بنایا۔ انہیں بدنام کرنے اور ان کے مقدس کردار کو داغدار کرنے کے لئے ہر قسم کے حربے اختیار کیے تاکہ امت اور اس کے نبی کے درمیان کا یہ واسطہ کمزور پڑ جائے۔ اور یوں بلا کسی قدو کاوش کے اسلام کا دینی سرمایہ خود بخود زمین بوس ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عناد کے اظہار اوراپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے بھی ان دشمنان دین نے صحابہ کرام کو ہی ہدف تنقید بنایا۔ چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے علامہ الدینوری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ کچھ زندیق جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا جائے مگر ان کے ایک بڑے نے کہا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہیں قتل کر دیا جائے گا۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا