کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 40
الزبیر رحمھم اللّٰہ أجمعین ومن کان معھم لاتخاصم فیھم وکل امرھم الی اللّٰہ ‘‘ الخ
(شرح السنۃ ص 109‘ طبقات الحنابلۃ ص 34 ج 2)
حضرت علی رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ، عائشۃ رضی اللہ عنہا، طلحہ رضی اللہ عنہ اور الزبیر رضی اللہ عنہ ان سب پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ ان کی باہم لڑائی کے بارے میں خاموشی اختیار کرو۔ ان کے بارے جھگڑا نہ کرو۔ اور ان کے معاملے کواللہ تعالیٰ کے سپرد کر دو۔‘‘
اسی طرح انہوں نے شرح السنۃ ص 112‘ طبقات ص 35‘36ج 2 میں کہا ہے کہ جو صحابہ کرام پر طعن کرتا ہے وہ بدعتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کسی کمزوری کو بیان نہ کرو اور نہ ہی کسی سے ان کے حق میں کوئی ایسی بات سنو، کیونکہ ایسی باتیں سننے سے دل سلامت نہیں رہتا۔ (ملخصاً) اسی سلسلے میں ان کے جذبات کا اندازہ کیجئے، لکھتے ہیں :
’’واعلم أنہ من تناول أحداً من أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاعلم أنہ أراد محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقد آذاہ فی قبرہ‘‘
(شرح السنۃ ص 120‘ طبقات الحنابلۃ ص 37ج 2)
’’خوب جان لو کہ جو کسی ایک صحابی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو وہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کا ارادہ کرتا ہے اور آپ کو آپ کی قبر مبارک میں تکلیف پہنچاتا ہے۔ ‘‘ اعاذنا اللّٰہ منہ۔ اس مسئلہ میں صراط مستقیم کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’من قدم الاربعۃ علی جمیعھم وترحم علی الباقین وکف عن زللھم فھو علی طریق الاستقامۃ والھدی فی ھذا الباب‘‘ (طبقات الحنابلۃ ص 41 ج 2)
جو چاروں خلفاء کو سب سے مقدم رکھتا ہے اور باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں رحمت کی دعا کرتا ہے اور ان کی زلات سے اجتناب کرتا ہے تو وہ اس مسئلہ میں استقامت اور ہدایت پر ہے۔