کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 37
من طلبھا والاھتمام بجمعھا‘‘ (کتاب الشرح والإبانۃ ص 268‘269) اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین مشاجرات سے ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوئے اور باقی لوگوں سے فضل و شرف میں سبقت لے گئے، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا‘ ان کے بارے میں استغفار کا حکم دیا، ان سے محبت کرنا اپنے تقرب کا ذریعہ قرار دیا۔ اور یہ سب اپنے نبی کی زبان سے فرض ٹھہرایا، حالانکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ ان سے ہونے والا تھا اسے جانتے تھے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ وہ باہم لڑائی جھگڑوں میں مبتلا ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو باقی سب لوگوں پر اس بنا پر فضیلت دی گئی ہے کہ قصداً وارادۃً ان سے غلطی کا صدور نہیں ہوتا اور جو ان کے مابین اختلافات تھے ان کو معاف کر دیا گیا۔ ان کے مابین جو اختلافات جنگ صفین‘ جنگ جمل اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کرنے اور اسی نوعیت کے دیگر نزاعات تھے ان کی طرف نظر التفاف نہ کی جائے، نہ ان واقعات کو اپنے لئے یا کسی دوسرے کے لئے لکھا جائے نہ کسی سے یہ نقل کیا جائے اور نہ کسی کے سامنے انہیں بیان کیا جائے اور نہ کسی بیان کرنے والے سے یہ سنیں جائیں ۔ اسی موقف پر اس امت کے سادات علمائے کرام کا اتفاق ہے۔ انہی میں حسب ذیل حضرات ہیں ۔امام حماد بن زید‘ یونس بن عبید‘ سفیان ثوری‘ سفیان بن عیینۃ‘ عبداللہ بن ادریس‘ مالک بن انس‘ ابن ابی ذئب‘ محمد بن المنکدر‘ عبداللہ بن مبارک‘ شعیب بن حرب‘ ابو اسحاق الفزاری‘ یوسف بن اسباط‘ احمد بن حنبل‘ بشر بن الحارث‘ عبدالوہاب الوراق رحمھم اللہ، یہ تمام حضرات مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیان کرنے، ان پر بحث و مناظرہ کرنے‘ ان کو سننے‘ ان واقعات کو تلاش کرنے اور ان کو جمع کرنے سے منع کرتے تھے۔‘‘ امام ابن بطہ رحمہ اللہ کے اس تفصیلی بیان سے مشاجرات صحابہث کے بارے میں سلف امت کے موقف کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ایمان کی صحت و سلامتی کا بھی یہی تقاضا ہے اور صحابہ کرام کے مقام و مرتبہ کے بھی یہی لائق ہے کہ ان کے مابین پیدا ہونے والے نزاعات و