کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 34
امام یزید بن ہارون اورھیثم رحمہ اللہ جیسے اعیان کے وہ استاد تھے اور ثقہ محدثین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ شھاب بن خراش رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام العوام رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے۔
’’اذکروا محاسن أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تأتلف علیھم القلوب ولاتذکروا ماشجربینھم فتحرشوا الناس علیھم ‘‘
(السنۃ للخلال ص 513، الشریعۃ للآجری ص 2493ج 5)
’’حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہث کے محاسن ذکر کرو حتیٰ کہ دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو جائے اور ان کے باہمی مشاجرات کو بیان مت کرو ورنہ لوگ ان کے خلاف برانگیختہ ہو جائیں گے۔‘‘ بلکہ شھاب بن خراش فرماتے ہیں کہ: ’’أدرکت من ادرکت من صدرۃ ھذہ الامۃ یقولون‘‘ کہ اس امت کے جن بڑے بڑے صدر نشینوں سے میں ملا ہوں وہ سبھی فرمایا کرتے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے محاسن بیان کرو۔ ان کے آپس کے اختلافات کو بیان نہ کرو۔ کیونکہ اس سے لوگ ان کے خلاف برانگیختہ ہوجائیں گے۔ (السیر ص 285ج 8، تہذیب الکمال للمزی ج 8 ص 402) وغیرہ۔
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا فرمان
مشہور محدث‘ فقیہ‘ مجاہد اور زاہد امام عبداللہ رحمہ اللہ بن مبارک اس سلسلے میں کس قدرمحتاط تھے، اس کا اندازہ ان کے حسب ذیل قول سے لگایا جا سکتا ہے، فرماتے ہیں :
’’السیف الذی وقع بین الصحابۃ فتنۃ ولا أقول لأحدمنھم مفتون‘‘۔ (السیر ص 405 ج 8)
’’کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین چلنے والی تلوار فتنہ تھی مگر میں ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہوگئے تھے۔‘‘اندازہ کیجئے کجا سلف کا یہ احتیاط اور کجا ان کے بارے میں وہ جسارتیں جو اس سلسلے میں روا رکھی جاتی ہیں ۔ امام عبداللہ بن مبارک سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رحمہ اللہ بن عبدالعزیز میں سے کون افضل ہے؟ تو انہوں نے