کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 32
اللہ تعالیٰ کی، اس کے فرشتوں کی اور سب لوگوں کی اس پر لعنت ہو۔‘‘ حضرت بشر رحمہ اللہ حافی فرماتے ہیں کہ امام معافی بن عمران سے پوچھا گیا اورمیں خود یہ بات سن رہا تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ، انہوں نے فرمایا :
کان معاویۃ افضل من ستمائۃ مثل عمر بن عبدالعزیز (السنۃ للخلال ص 435)
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جیسے چھ سو بزرگوں سے بھی افضل ہیں ۔
کیا حضرت معاویہ کاتب وحی تھے؟
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابتداری کسی سے مخفی نہیں، وہ رسول اللہ اکے کاتب تھے بلکہ کاتب وحی تھے جیسا کہ امام معافی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں ’’کان یکتب الوحی فھوممن ائتمنہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی کتابۃ الوحی‘‘ کہ وہ کاتب وحی تھے اور وہ ان حضرات میں سے تھے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت وحی میں امین بنایا تھا (منہاج السنۃ ص 11ج 4) نیز ملاحظہ ہو منہاج ص 214ج 2‘ بلکہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تو لکھتے ہیں :
وکان زید بن ثابت من الزم الناس لذلک ثم تلاہ معاویۃ بعد الفتح فکانا ملازمین للکتابۃ بین یدیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الوحی وغیرذلک، لا عمل لھما غیر ذٰلک۔ (جوامع السیرۃ ص 27)
’’کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت سب سے زیادہ کتابت سے متعلق تھے فتح مکہ کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یہ ڈیوٹی سرانجام دیتے تھے، یہ دونوں حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہمیشہ کتابت وحی وغیرہ کے لئے مستعد رہتے، اس کے علاوہ ان کی اور کوئی ذمہ داری نہ تھی‘‘ علامہ نووی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ ’’ کان اکثرھم کتابۃ زید بن ثابت و معاویۃ ‘‘ کہ اکثر طور پر لکھنے کا کام حصرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کرتے۔ (تہذیب الاسماء ص 29ج 1)۔ یہی بات علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تلقیح فھوم أھل العصر ص 37 اور المدھش