کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 29
کے تعلق و تقرب کا اظہار ہے، ازواج مطہرات رضوان اللہ علیھن حرمت و تکریم کی بنا پر مومنوں کی مائیں ہیں ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا وأزواجہ أمھاتھم کہ نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں، (الاحزاب)، مگر ماں ہونے کے ناطے تمام احکام نسب ان کے لئے ثابت نہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی بہنوں سے نکاح جائز ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں (منہاج السنہ ص199 ج2)۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مومنوں کے خالو ہونے کا یہ تاثر خود ان کے عہد میں بھی موجود تھا، چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جو قیدی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آئے انہوں نے وہاں سے واپسی پر انہیں چھوڑ دیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھی قیدی تھے وہ پہلے سمجھتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میری جماعت کے قیدیوں کو قتل کر دیا ہے۔ اس لئے وہ بھی ان کے قیدیوں کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قیدی چھوڑ دیئے ہیں تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی قیدی چھوڑ دیئے، انہی میں ایک عمروبن اوس ازدی تھے۔ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کرنا چاہا تو اس نے کہا اے میرے خالو! مجھ پر احسان کیجئے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہارا خالو کیسے ہوں ؟ اس نے کہا ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں، اس ناطے وہ ام المومنین ہیں اور میں ان کا بیٹا ہوں اور آپ ان کے بھائی اور میرے خالو ہیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا اور اسے چھوڑ دیا۔ (البدایہ ص278 ج7)
قاضی ابویعلی رحمہ اللہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے ’’تنزیہ خال المؤمنین معاویۃ بن أبی سفیان من الظلم والفسق فی مطالبۃ بدم امیرالمؤمنین عثمان رضی اللّٰہ عنھما‘‘ اندازہ کیجئے اس کتاب کے نام ہی میں انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو مومنوں کا خالو قرار دیا ہے۔ عمر بن علی بن سمرۃ الجمعدی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذکر میں لکھتے ہیں :
ثم ولی خال المؤمنین و کاتب وحی رب العالمین۔۔ الخ
(طبقات فقھاء الیمن ص47)