کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 24
تقاضے کے مطابق بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خطائیں ہوئیں اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں بھی ہوئیں ۔ اسی طرح آپ کے بعد بھی ہوئیں ۔ ان خطاؤں کے نتیجہ میں ان کی پریشانی اور بے چینی کا ذکر احادیث کی کتاب الحدود میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم الہٰی نافذ کر کے انہیں پاک صاف کر دیا اور فرمایا اس کی توبہ اگر مدینہ کے ستر گناہگار افراد پر تقسیم کر دی جائے تو وہ سب کے لئے کافی ہو جائے۔ یہی معاملہ آپ کے بعد ہونے والے بعض واقعات کے بارے میں سمجھ لیجئے۔ اس ضروری وضاحت سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے معافی کا اعلان عام کر کے انہیں جنتی قرار دیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے درگزر کرنے کی تاکید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ میری وجہ سے میرے صحابہ سے درگزر کرو، اب یہ فیصلہ ہر کسی کے دین و ایمان کا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بعض لغزشوں سے ’’صحابی رسول‘‘ ہونے کے ناطے درگزر کرنا ہے یا ان کو برسر منبر و محراب بیان کر کے انہیں تضحیک کا نشانہ بنانا ہے۔ علاوہ ازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہنے اور ان کے حق میں نازیبا کلمات کہنے سے منع فرمایا بلکہ انہیں سبّ (گالی گلوچ) کرنے اور ان پر طعن و تعریض کے نشتر چلانے والوں کو لعنتی قرار دیا اور فرمایا کہ ایسے شخص پر اللہ، اس کے ملائکہ اور اس کے بندوں کی طرف سے لعنت ہو، یہی وجہ ہے کہ علمائے امت نے اس فعل کے مرتکب کو کبیرہ گناہ کا مرتکب ٹھہرایا ہے اور ان کی عزت و ناموس پر حملہ کرنا‘ ان کی عیب جوئی کرنا یا ان پر طعن و تشنیع کرنا حرام قرار دیا ہے۔ بعض حضرات‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین ہونے والے مشاجرات و اختلافات کو اور اسی طرح ان کی باہمی آپس کی توتکار کو ہوا دے کر اپنے دل کے روگ کی تسکین چاہتے ہیں ۔ ان کی اس ناپاک جسارت کا نتیجہ ہے کہ بعض لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بالعموم اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ‘، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ‘ اورحضرت عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص کے بارے میں بالخصوص سوئے ظن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کا ادب و احترام سے نام بھی نہیں لیتے بلکہ ان کا دفاع