کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 23
مقابلے میں ان سے ایسے اعمال حسنہ پائے گئے جو ان کے گناہوں کا کفارہ بن گئے اور ان کی حسنات کا پلہ ان کی تقصیرات سے بہرنوع بھاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی رضامندی کا اظہار فرمایا اور ان کے ایمان و اخلاص کی تعریف کی، ان کو معیار ایمان قرار دیا ان کے ایمان میں شک کرنے والوں کو منافق ٹھہرایا۔ ان کو ذلیل سمجھنے والوں کو ذلیل و رسوا قرار دیا۔ دنیا و آخرت میں کامیابی وکامرانی کامژدہ جانفزا سنایا اور یہ بھی کہ : ولکن اللّٰہ حبب إلیکم الإیمان وزینہ فی قلوبکم وکرہ إلیکم الکفر و الفسوق العصیان اولئک ھم الراشدون‘‘ (الحجرات : 8) ’’لیکن اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دلوں میں مزین کر دیا اور کفر و فسق اور عصیان سے تم کو نفرت دی، یہی ہیں جو راہ ہدایت پر ہیں ‘‘۔ ایمان کا دلوں میں گھر کر لینے کے اعلان کے ساتھ ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں کفر‘ نافرمانی‘ اور فسق و فجور کے بارے میں نفرت پیدا کر دی ہے، غور کیجئے کہ یہ آیت جس سیاق و سباق اور پس منظر میں نازل ہوئی اس کا تعلق ولید رضی اللہ عنہ بن عقبہ سے ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی المصطلق سے زکاۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا اور یہ بات بھی مورخین کے ہاں طے شدہ ہے کہ حضرت ولید رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقعہ پر مسلمان ہوئے تو گویا اس کا ورود فتح مکہ کے بعد ہے اور اس دور میں شرف صحبت سے مشرف ہونے والوں کے بارے میں رب عرش عظیم نے فرمایا ہے کہ کفر اور فسق و فجور کی ان کے دلوں میں نفرت پیدا کر دی گئی ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں ’’فسوق‘‘ سے کبیرہ گناہ اور ’’عصیان‘‘ سے تمام گناہ مراد ہیں ۔ (تفسیر ابن کثیر ص268 ج4) یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے متنفر تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ نفرت پیدا فرما دی تھی، اس واضح اعلان کے بعد اب ان کے بارے میں یہ تاثر قائم کرنا کہ انہوں نے قصداً اور ارادۃً محض دنیوی اغراض کی بنا پر غلطیوں کا ارتکاب کیا۔ اپنی عاقبت برباد کرنے کے مترادف ہے۔ بلاشبہ انسانی