کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 20
اللہ سبحانہ وتعالیٰ علام الغیوب ہیں، وہ ہر ایک کی پوزیشن کو خوب جانتے ہیں ۔
[1]
[1] عمل امیر المؤمنین عثمان بن عفان ثنی عشرۃ سنۃ لا ینکرون من امارتہ شیئا، حتی جاء فسقۃ‘‘ (التاریخ الصغیر للبخاری ص34)
کہ فساق کی آمد سے پہلے امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی امارت کے بارہ سال میں تو ان کے کسی عمل پر کس نے انکار واعتراض نہیں کیا اور جن حضرات نے ان کے بعض معاملات پر اعتراض کیا ان کا دفاع حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا۔ چنانچہ ماضی قریب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے ناقد بھی اس حقیقت کا اعترف کیے بغیر نہ رہ سکے کہ حضرت عثمان کے خلاف جتھہ بندی کرنے والے:
’’کسی علاقے کے بھی نمائندہ نہ تھے بلکہ ساز باز سے انھوں نے اپنی ایک پارٹی بنائی تھی۔ جب یہ مدینہ سے باہر پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو انھوں نے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی مگر تینوں بزرگوں نے انھیں جھڑک دیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ایک ایک الزام کا جواب دے کر حضرت عثمان کی پوزیشن صاف کر دی۔ مدینے کے مہاجرین و انصار بھی، جو دراصل اس وقت مملکت اسلامیہ میں اہل حل و عقد کی حیثیت رکھتے تھے ان کو ہمنوا بننے کے لیے تیار نہ ہوئے مگر یہ لوگ اپنی ضد پر قائم رہے۔، ،
(خلافت و ملوکیت ص117)
ہم یہاں اس مسئلہ کو طول دینا نہیں چاہتے کہ یہ ہمارا موضوع نہیں ۔ البتہ اہل ایمان سے اتنی بات کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید قراردیا اور اس موضوع کی روایات حد ِتواتر کو پہنچی ہوئی ہیں ۔ اگر معترضین کے اعتراضات درست اور وہ حق بجانب تھے تو حضرت عثمان کی شہادت اور ان کے موقف کی تائید وحمایت چہ معنی دارد؟ حضرت مرہ بن کعب سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فتنوں کا ذکر کیا۔ ایک آدمی سر پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو آپ نے فرمایا: ھذا یومئذ علی الھدی کہ یہ شخص فتنہ کے دنوں میں ہدایت پر ہوگا۔ میں اس شخص کی طرف کھڑا ہوا کہ دیکھوں یہ کون ہے، تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان تھے۔ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا چہرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتے ہوئے عرض کی:ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا:ہاں ۔ یہ روایت جامع ترمذی مع التحفۃ (ص 322 ج 4) کے علاوہ ابن ماجہ (ص 11:)اور مسند امام احمد(ج4 ص 236) میں بھی مروی ہے۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا۔ علامہ البانی نے فرمایا: ’’ھوکما قال واسنادہ صحیح ‘‘یہ ایسے ہی جیسے امام ترمذی نے کہا :اس کی سند صحیح ہے۔ (مشکوٰۃ ج 3ص 1715) اور صحیح سنن الترمذی میں بھی اسے ذکر کیا۔ نیز دیکھیے کتاب السنۃ (ج2ص 591) الاحاد والمثانی مصنفہ امام ابن ابی عاصم (