کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 19
بدر میں بھی شریک نہ تھے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا :ہاں معلوم ہے۔ اس نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ وہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہ تھے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:ہاں معلوم ہے۔ اس نے اﷲ اکبر کہا۔(یعنی اتنی غلطیوں کے باوجود وہ خلیفہ کیسے) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:ادھر آؤ، میں تمھیں ان باتوں کی حقیقت بتلاتا ہوں ۔ احد کی لڑائی میں بھاگ جانا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ نے ان کا قصور معاف کر دیا اور انھیں بخش دیا۔ رہا بدرمیں شریک نہ ہونا تواس کا سبب یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی (رقیہ رضی اللہ عنہا) تھیں ۔ وہ بیمار تھیں جس کی بنا پر انھیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم ان کی خدمت مدا رت میں رہو) تمھیں بدر میں شریک ہونے والے کے برابر اجر وثواب اور مال غنیمت میں برابر کا حصہ ملے گا۔ رہا بیعت ِرضوان میں غائب ہونا (تو اس میں بھی ان کی فضیلت ہے) اگر اہلِ مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی عزت والا ہوتا تو اس کو بھیجتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف بھیجا۔ حضرت عثمان وہاں گئے ہوئے تھے کہ بیعت رضوان ہوئی۔ اس پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سیدھے ہاتھ سے اشارہ فرمایا:یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اس کو اپنے بائیں ہاتھ پر مارا اور فرمایا:یہ عثمان کی بیعت ہے۔ پھر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس شخص سے کہا : یہ تینوں جواب اپنے ساتھ لے جانا۔ (بخاری ج 1ص 523)
حضرت عبداﷲ بن عمررضی اللہ عنہما نے جو فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا تو یہ اسی آیت کی بنا پر فرمایا۔
ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعان انما استزلھم الشیطان ببعض ما کسبوا ولقد عفا اللّٰہ عنھم ان اللّٰہ غفور حلیم۔ (آل عمران : 155)
جیسا کہ ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں ۔ اندازہ کیجیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عداوت میں کیا کیا باتیں بنائی گئیں اور حقائق کے بالکل برعکس کس قد ر غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا گیا۔ [1]
[1] حضرت حسن رضی اللہ عنہ بصری فرماتے ہیں : (