کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 18
بن جبیر رحمہ اللہ، عطاء رحمہ اللہ، مجاہد رحمہ اللہ، سفیان ثوری رحمہ اللہ اور اعمش رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ (ابن کثیرص 360ج4)
اسی لیے حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں طعن و ملامت کرنے والوں کو ٹوکا کہ جب اﷲ تعالیٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھلائی کا فیصلہ فرما چکے ہیں تو تم ان کے بارے میں یاواگوئی کرکے اپنا نامہء اعمال سیاہ نہ کرو۔
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے شربِ خمر کا جرم سرزد ہوا، تو بعض سے زنا کا، حد لگی اور وہ اس جرم سے بری الذمہ قرار پائے۔ ان زلات کے باوجود ان کا احترام واجب ہے۔ کسی کو اجازت نہیں کہ وہ ان پر زبان طعن دراز کرے۔غزوہ احد کے موقع پر جب شدید رن پڑا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تتر بتر ہو گئے۔ اور بعض میدان چھوڑ کر مدنیہ طیبہ بھاگ نکلے جن کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعان انما استزلھم الشیطان ببعض ما کسبوا ولقد عفا اللّٰہ عنھم ان اللّٰہ غفور حلیم۔ (آل عمران : 155)
’’کہ تم میں سے جو لوگ مقابلے کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے ان کی اس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگا دیئے تھے۔ اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔ اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔‘‘
غور فرمائیے! اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے تو اس کوتاہی کے مرتکبین کو معاف فرما دیا مگر جن کے دلوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بالخصوص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوئے ظن پایا جاتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اعلان معافی کے باوجود انھیں معاف کرنے کو تیار نہیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف مصر کے رہنے والے پیش پیش تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ اہل مصر ہی میں سے ایک شخص نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے عثمان رضی اللہ عنہ احد کے روز بھاگ گئے تھے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا :معلوم ہے۔ اس نے کہا: آپ کے علم میں ہے کہ وہ غزوہ