کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 17
تھا۔ غالباً اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئے میں اس منافق کا سرقلم کر دوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہے تمہیں علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر سے فرمایا ہے کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص تشریف فرما تھے کہ کچھ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یاوا گوئی شروع کر دی۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ مھلا عن اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فانا اصبنا ذنبا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأنزل اللّٰہ عزوجل ’’ لو لا کتٰب من اللّٰہ سبق لمسکم فیما أخذتم عذاب عظیم، ، وأرجو أن تکون رحمۃ من اللّٰہ تعالٰی سبقت لنا‘‘ (المطالب العالیہ ص 340ج 4) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں یاواگوئی سے باز آجاؤ۔ ہم سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں غلطی ہو گئی تھی تو اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اگر کوئی اﷲ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی اور مجھے امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہمارے بارے میں سبقت لے گئی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی اثر کے تحت لکھا ہے:’’ ھذا اسناد صحیح و قد اشتمل ھذا المتن علی فوائد جلیلۃ‘‘ کہ اس کی سند صحیح ہے۔ اور یہ تین بڑے عظیم فوائد پر مشتمل ہے۔ امام حاکم نے بھی المستدرک (ص 229ج 2) میں اس کو ذکر کیا ہے اور اسے علی شرط شیخین صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی تلخیص المستدرک میں ان سے موافقت کی ہے۔ سورہ انفال کی یہ آیت نمبر68 غزوہء بدر کے پس منظر میں نازل ہوئی جس میں اسیرانِ بدر سے فدیہ لے کر انھیں چھوڑ دیا گیا تھا۔ اﷲ ذوالجلال کے ہاں یہ فیصلہ پسندیدہ نہ تھا۔ اسی پس منظر میں یہ آیت نازل ہوئی۔جس میں پہلے سے لکھے ہوئے فیصلہ سے اہل بدر کے بارے میں مغفرت عامہ مراد ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے علاوہ سعید