کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 16
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں مبتلا تھے۔ کچھ انصار صحابہث ایک جگہ بیٹھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرکے رو رہے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے ان کی کیفیت معلوم کی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر انصار صحابہث کی دل گرفتگی کا ذکر کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سارا ماجرہ سن کر مسجد میں تشریف لائے سر میں درد کی بنا پر سرمبارک کپڑے سے باندھ رکھا تھا۔ منبر پر تشریف لے گئے۔ ’’ولم یصعد بعد ذٰلک الیوم‘‘ منبر مبارک پر یہ چڑھنا آپ کا آخری بار تھا۔ آپ ا نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: لوگو! میں تمہیں انصار رضی اللہ عنہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں وہ تو میرے جان و جگر ہیں ۔ وہ اپنا حق ادا کر چکے اب ان کا حق (جنت ملنے کا) باقی ہے ان میں جو نیک ہو اس کی قدر کرو اور جو برا ہو اس کے قصور سے درگزر کرو۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مابین رنجش پیدا ہو گئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے معذرت کر لی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے معافی طلب کی، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بے نیازی دکھلائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا : ’’ فھل انتم تارکوالی صاحبی‘‘ کیا تم میری خاطر میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہویا نہیں ؟ (بخاری مع الفتح ص 18ج 7 ملخصاً) حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف کے مابین ہونے والی شکر نجی کا ذکر پہلے گزرچکا۔ اسی واقعہ میں مسند احمد اور بزار کے الفاظ ہیں ’’دعوا لی اصحابی‘‘ کہ میری وجہ سے میرے صحابہ سے درگزرکرو۔ (مجمع الزوائد ص 15 ج 10) یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بشری تقاضا کے مطابق کچھ کو تاہیاں سرزد ہوئیں مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا، فتح مکہ کے موقعہ پر حضرت حاطب رضی اللہ عنہ بن ابی بلتعہ نے اہل مکہ کو خط لکھ کہ خبردار کر دینا چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے خلاف اقدام کرنے والے ہیں ۔ جس کی تفصیل حدیث وتاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ خلاصہ یہ کہ ان کا خط پکڑا گیا۔ عسکری نقطہ ِء نظر سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ عمل ملت اسلامیہ سے بغاوت کے زمرہ میں آتا