کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 15
نہیں، پھر حضرت زین رحمہ اللہ العابدین نے فرمایا : کیا تم انصار میں سے ہو ؟تو انہوں نے عرض کیا، جی نہیں ۔ پھر حضرت زین رحمہ اللہ العابدین نے فرمایا : جب تم ان دونوں میں سے نہیں تو میں گواہی دیتا ہوں تم ان لوگوں میں سے بھی ہر گز نہیں ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : والذین جاء و من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخوننا الذین سبقونا بالإیمان۔۔۔الآیۃ ’’کہ جو لوگ بعد میں آئے کہتے ہیں اے ہماے رب !ہم کو اور ہمارے سابق ایمان لانے والے بھائیوں کو بخش دے اور ہمارے دلوں میں مومنوں کے بارے میں کوئی کینہ نہ رکھ۔ ‘‘تم یہاں سے نکل جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ وہی معاملہ کرے جس کے تم حقدار ہو۔ یہ واقعہ حلیۃ الاولیاء ص 137ج 3‘ تفسیر قرطبی ص 31ج 18 کے علاوہ معروف شیعہ مؤرخ علامہ علی بن عیسی اربلی کی کشف الغمہ فی معرفۃ الائمۃ ص 267ج 2 مع ترجمہ المناقب فارسی میں بھی مذکور ہے۔ ان تمام احادیث و آثار سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں استغفار کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بری اور ناگوار بات کرنے‘ ان کی مذمت یا ان کو سب دشتم کرنے سے منع فرمایا اور اس کے مرتکبیں کو لعنت کا مستحق قرار دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے درگزر کرنے کا حکم صحیح بخاری و مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا : ’’فاقبلوا من محسنھم وتجاوزواعن مسیئھم‘‘ (بخاری مع الفتح ص 121ج 7، مسلم ) کہ ان کے نیک آدمیوں کی نیکیوں اور خوبیوں کا اعتراف کرو اور ان کے خطا کاروں کی خطاؤں اور لغزشوں سے صرف نظر کرو۔ صحیح بخاری ہی میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ