کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 14
ہوئے فرمایا ہے کہ یہ مہاجرین و انصار کا حق ہے اور ان لوگوں کا بھی حق ہے جو ان کے بعد ہوئے، اور وہ اپنے لیے اور اپنے سے پہلے ایمانداروں کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
والذین جآء و من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولاتجعل فی قلوبنا غلاً للّذین آمنوا ربنا إنک رء وف رحیم ‘‘ (الحشر: 10)
اور جو ان مہاجرین و انصار کے بعد آئے، جو کہتے ہیں : اے ہمارے رب !ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں، اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے کوئی بغض نہ رکھ‘ اے ہمارے رب بے شک تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔
یہی وہ آیت ہے جس کی طرف ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اشارہ فرمایا کہ حکم تو صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں استغفار کا تھا مگر لوگ انہیں گالیاں دینے لگے بلکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تو فرماتے ہیں ۔
’’لا تسبوا أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإن اللّٰہ عزوجل أمرنا بالاستغفار لھم وھویعلم انھم سیقتلون۔‘‘
’’کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا مت کہو۔ بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ عنقریب قتل وقتال میں مبتلا ہوں گے ہمیں ان کے بارے میں استغفار کا حکم فرمایا ہے۔
(فضائل الصحابہ لابن احمد ص 70 ج 1، ص 1152ج 2، اصول اعتقاد ص 1250,1245ج 7، الشریعہ للاما م الآجری ص 2492ج 5، منھاج السنۃ ص 154ج 1، الصارم المسلول ص 574 وغیرہ)
حضرت سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ عراق سے ان کے ہاں ایک وفد آیا جنہوں نے حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم کے بارے میں نازیبا باتیں کہیں تو انہوں نے فرمایا : کیا تم مہاجرین میں سے ہو؟ تو انہوں نے عرض کیا، جی