کتاب: مشاجرات صحابہ اور سلف کا مؤقف - صفحہ 13
فرمایا:
’’ اذا ذکر اصحابی فأمسکوا، واذا ذکر النجوم فأمسکوا، واذا ذکر القدر فأمسکوا‘‘
(طبرانی وغیرہ، الصحیحۃ نمبر34)
’’کہ جب میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ذکر ہو تو خاموش رہو، جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو، اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو۔‘‘
تقدیر پر ہر مسلمان کا ایمان ہے۔ مگر اس میں بحث و نظر کی ممانعت ہے۔ ستاروں کے احکام اور ان کی تاثیر کے بارے میں بحث و تمحیص منع ہے، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین منازعات و مشاجرات پر بحث و تکرار اور ان کے بارے میں طعن و تشنیع سے بھی آپ ا نے منع فرمایا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی روایت موقوفاً ان الفاظ سے ہے، انھوں نے فرمایا:
’’ یا غلام ایاک و سب اصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فان سبھم مفقرۃ۔۔ الخ‘‘
(الثقات لابن حبان ج ۸ ص ۳)
کہ اے برخوردار!صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہنے سے اجتناب کرو، کیوں کہ ان کو برا کہنا فقرو مسکینی کا باعث ہے، ستاروں میں غوروفکر کہانت اور تقدیر کی تکذیب زندقت کو دعوت دینا ہے۔ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہنا اپنے نامہء اعمال کو برباد کرنا ہے، جو آخرت میں فقرو بے کسی کا باعث ہوگا۔ اعاذنا اللّٰہ منہ۔!
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ
’’أمروا ان یستغفروا لاصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسبوھم‘‘ (مسلم ج 2 ص 421)
’’حکم تو یہ دیا گیا کہ محمد ا کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں استغفار کرو‘ مگر لوگوں نے انہیں برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔‘‘
رب ذوالجلال والا کرام نے مالِ فے اور مالِ غنیمت کے حقداروں کا ذکر کرتے