کتاب: مسلمان خاندان اسلام کی آغوش میں - صفحہ 73
موجود ہے؟کتاب وسنت کی رو سے وضاحت فرمائیں۔ جواب۔عورت کے نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے اور ولی مرد ہی ہوسکتاہے۔حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (لا نكاح إلا بولي)[1] ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، ابن حبان(6075تا4078) اور حاکم نے صحیح قراردیا ہے۔اسی طرح ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘[2] اس حدیث کو بھی امام ابن حبان اور امام حاکم وغیرہ نے صحیح قراردیا ہے۔ علامہ زکریاانصاری فرماتے ہیں: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی کے بغیر واقع ہونے والا نکاح صحیح نہیں ہے۔‘‘[3] سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی عورت کسی عورت کی شادی نہ کرے اور نہ کوئی عورت اپنی شادی بذات خود کرے۔‘‘[4] علامہ زکریا انصاری نے فتح العلام (ص531)میں اس حدیث کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قراردیا ہے۔ معلوم ہوا کہ عورت نہ خود اپنا نکاح کر سکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کا،
[1] ۔ ابوداؤد كتاب النكاح باب في الولي (2085) ابن ماجه(1881) ترمذي (1101)حاكم (2/169) [2] ۔ ابوداؤد کتاب النکاح باب فی الولی (2083) ترمذی (1102) ابن حبان (4074) حاکم (2/168 ح 2706) [3] ۔ فتح العلام ص 516۔ [4] ۔ ابن ماجه كتاب النكاح باب لا نكاح الابولي (1882) دارقطني (3/227،228) بيهقي (7/110)